بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی نے حالیہ عام انتخابات سے قبل انتخابی مہم کے دوران ’اب کی بار 400 پار‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ یعنی یہ کہ بی جے پی لوک سبھا میں 543 میں سے 400 نشستیں حاصل کرکے بھرپور اکثریت والی، مضبوط حکومت بنائے گی۔ ایسا نہ ہوسکا۔
وزیرِاعظم مودی کی شدید خود اعتمادی اُنہیں مشکلات سے دوچار کرگئی اور پارٹی کو بھی۔ مغربی بھارت کی اہم ریاست مہاراشٹر میں بی جے پی کو بیشتر نشستوں پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
حد یہ ہے کہ وارانسی (بنارس) میں بھی، جو ہندو انتہا پسندوں کے لیے لیے مضبوط ترین گڑھ کا درجہ رکھتا ہے، بی جے پی شکست سے بال بال بچی۔
مہاراشٹر میں بی جے پی کی شکست اس حوالے سے بھی بہت اہم اور قابلِ ذکر ہے کہ جہاں جہاں بھی نریندر مودی نے خود جاکر مہم چلائی وہاں وہاں بی جے پی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
نریندر مودی نے 18 حلقوں میں ریلیاں نکالیں مگر اس کے باوجود بی جے پی کی قیادت میں قائم سیاسی اتحاد این ڈی اے اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔
اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں بھی نریندر مودی نے مہم چلائی وہاں بی جے پی اور اتحادیوں کے لیے بھرپور شکست کا سامان ہوا۔ مہاراشٹر میں بی جے پی بہت زور لگانے پر بھی لوک سبھ کی صرف 9 نشستیں حاصل کرپائی۔
نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کامیاب رہا ہے اور نریندر مودی تیسری مدت کے لیے بھی وزیرِ اعظم منتخب ہوجائیں گے تاہم مہاراشٹر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات سے قبل بی جے پی کا شکست کھا جانا بہت پریشان کن ہے۔
2019 میں بی جے پی نے مہاراشٹر میں لوک سبھا کی 23 نشستیں جیتی تھیں۔ اس بار فتح 9 نشستوں تک محدود رہی ہے۔
نریندر مودی نے جن 18 حلقوں میں ریلیاں نکالی تھیں اور روڈ شو کیے تھے اُن میں سے صرف 3 میں بی جے پی کامیاب ہو پائی۔ بی جے پی کو واضح اکثریت حاصل کرنے سے دور رکھنے میں نریندر مودی کی بعض پالیسیوں کا کردار نمایاں رہا ہے۔
بھارتی وزیرِ اعظم نے آخری وقت تک اقلیتوں کو جوتے کی نوک پر رکھا اور یہ تاثر دیا کہ اب انہیں کسی کے ووٹوں کی ضرورت نہیں۔
اس غلط سوچ کا کانگریس اور دیگر لبرل یا بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اقلیتوں کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔