یہ بات تو طے ہے کہ دنیا سے رخصت ہونے والے لوگوں سے رابطہ بالکل ختم ہوجاتا ہے اور ایسا کوئی طریقہ کار آج تک ایجاد نہیں ہوسکا جس کے ذریعے اپنے بچھڑے پیاروں سے بات کی جا سکے۔
مگر وہیں مصنوعی ذہانت اس عمل کو ممکن بنانے کے لیے کوشاں ہے کہ دنیا سے جانے والے افراد کے ساتھ کسی طرح بات کی جائے۔
مصنوعی ذہانت سے دنیا بھر میں 40 فیصد ملازمتوں کو خطرہ
یہاں ایک واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ جس میں ایک مائیکل بومر نامی شخص نے اپنی اہلیہ کے ساتھ زندگی کا ایک طویل عرصہ ساتھ گزارا۔
اس عرصے کے دوران مائیکل کی اہلیہ ان سے ڈھیروں سوال کرتیں۔ مگر ایک دن ڈاکٹروں کی جانب سے مائیکل بومر میں کینسر کی تشخیص کا بتایا گیا، جس کے بعد اسے اپنی اہلیہ کی فکر ستانے لگی۔
مائیکل نے سوچا کہ کینسر سے مرنے کے بعد اس کی اہلیہ کس سے سوالات پوچھا کرے گی۔
مائیکل کی اہلیہ کو بھی کینسر کا علم ہوا تو وہ بھی پریشانی کے عالم میں مبتلا ہوئی اور سوچنے لگی کہ وہ اتنے سارے سوال کس سے پوچھا کرے گی؟
بومر نے اپنی اہلیہ کی یہ پریشانی ایک انٹرویو میں شئیر کی اور بتایا کہ وہ اس کے لیے مصنوعی ذہانت کی مدد لیں گے۔
انہوں نے یہ بات برلن کے مضافات میں اپنی رہائش گاہ پر انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ مائیکل نے مصنوعی ذہانت سے اپنی آواز کو دوبارہ تیار کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ان کی موت کے بعد ان کی اہلیہ سن سکے۔
مائیکل بومر نے اس کام کے لیے اپنے ایک دوست رابرٹ لوکاشیو سے رابطہ کیا جو امریکا میں مصنوعی ذہانت کے ایک ادارے کا سربراہ ہے۔ اس رابطے کے بعد محض دو ماہ بعد وہ اس پوزیشن میں آگئے کہ بومر کا ایک جامع گفتگو کا ورژن تیار کر سکیں۔
یونیورسٹی طلبا نے چیٹ جی پی ٹی سے سیکھ کر سستا آرٹیفیشل انٹیلیجنس نظام تیارکر لیا
بومر نے بتایا کہ مصنوعی ذہانت استعمال کرنے کے اس طریقہ کار کے ذریعے ان کے اہل خانہ کو فائدہ حاصل ہوسکے گا۔
اس کے لیے لوگوں کی پہلے سے ریکارڈ کردہ ویڈیوز کو ایک الگورتھم کی مدد سے ترتیب دیا جاتا ہے۔ یعنی یہ ایک ’چیٹ بوٹ‘ ہوتا ہے جس میں صارف خود اپنے سوالات کو فیڈ کر سکتا ہے۔