برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک خودساختہ سائنسدان کا کہنا ہے کہ موہن جو دڑو میں قدیم ایٹمی جنگ کے شواہد موجود ہیں۔
”جو روگن پوڈ کاسٹ“ پر بات کرتے ہوئے معروف برطانوی کاروباری شخصیت اور سازشی تھیورسٹ بلی کارسن نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں واقع موہن جو دڑو کے آثار قدیمہ میں جوہری دھماکے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔
پراسرار الاسکا ٹرائی اینگل، جہاں جانے والے 20 ہزار افراد آج تک واپس نہ لوٹے
ایم آئی ٹی سے سائنس کی ڈگری رکھنے والے بلی کارسن نے کہا، وہاں ’عمارتیں شیشے میں بدل گئیں، ریت شیشے میں بدل گئی اور لاشیں ابھی بھی گلی میں پڑی ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ وہاں سے جو انسانی ڈھانچے برآمد ہوئے وہ مرتے وقت ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، اور ان میں بظاہر تابکاری متوقع سطح سے کہیں زیادہ پائی گئی ہے۔
پاکستان کے صوبے سندھ میں موجود قدیم شہر موہن جو دڑو تقریباً 3,700 سال پہلے ویران ہونے سے قبل ہزاروں سال تک ای ترقی یافتہ شہر رہا تھا، جو 1920 کی دہائی میں دوبارہ دریافت ہوا۔
پاکستان کےبارے میں 5 حقائق, جوکسی نصاب میں شامل نہیں
خیال کیا جاتا ہے کہ موہن جو دڑو اپنے وقت کا سب سے ترقی یافتہ شہر تھا، جس میں نمایاں طور پر جدید ترین سول انجینئرنگ اور شہری منصوبہ بندی تھی۔
لیکن کارسن کا دعویٰ ہے کہ قدیم ہڑپہ تہذیب اس سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھی۔
انہوں نے کہا کہ وہاں ’ایسی لاشیں ہیں جو سیڑھیوں کے کنارے پر اپنی ان عمارتوں کے ساتھ بیٹھی ہیں جس میں وہ رہتے تھے، اور عمارت شیشے میں تبدیل ہو چکی ہے‘۔
ان کا ماننا ہے کہ یہ باقیات صرف 3 ہزار ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پیدا کرنے والے ہتھیاروں کی آگ سے ہی بن سکتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ روایتی آثار قدیمہ کے پاس شہر کی اچانک تباہی کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ موہن جو دڑو ایک ماورائے ارضی اثر جیسے کہ کوئی شہاب ثاقب گرنا جیسے اسباب سے تباہ ہوا تھا، لیکن کارسن اس امکان کو مسترد کرتے ہیں۔
سالوں پرانے ”الیومیناتی“ نامی گیم میں 9/11 حملوں اور کورونا وائرس کی پیشگوئی
وہ کہتے ہیں اگر ایسا ہوتا تو ’ان کی ہڈیاں بکھری پڑی ہوتیں اور ٹکڑوں میں بٹ جاتیں، جب کہ اس مقام پر ملنے والی باقیات نسبتاً مکمل اور غیر متزلزل معلوم ہوتی ہیں، یہاں تک کہ تلواروں یا لاٹھیوں سے ملنے والی چوٹیں بھی نہیں دکھاتیں‘۔