سپریم کورٹ میں جاری نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف کیس کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی درخواست کے معاملے پر جسٹس اطہر من اللہ نے اختلافی نوٹ جاری کر دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے جاری کردہ اختلافی نوٹ کے مطابق انہوں نے کیس کی کارروائی کو براہ راست نشر کرنے کی درخواست کو منظور کیا اور لکھا کہ بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے براہ راست نشر کرنا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ میں جاری نیب ترامیم کیس کے دوران عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے لیکن عدالتی کارروائی لائیو نہیں دکھائی گئی۔
علی امین گنڈاپور کی وفاق کو پھر دھمکی، گورنر خیبرپختونخوا کو سرعام گالیاں
اس ضمن میں ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے سماعت لائیو دکھانے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی، جسے چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے بینچ کے دو ججز کی جانب سے مسترد کیا گیا جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ نیب ترامیم کیس کی 31 اکتوبر 2023 اور رواں سال 14 مئی کی سماعت براہ راست نشر ہوئی، بانی پی ٹی آئی عمران خان ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے ناطے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو لائیو دکھانا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو جب پھانسی دی گئی وہ عام قیدی نہیں تھے، بینظیر بھٹو اور نواز شریف بھی عام قیدی نہیں تھے۔
انہوں نے لکھا کہ سابق وزرا اعظم کے خلاف نیب اختیار کا غلط استعمال کرتا رہا، سابق وزرا اعظم کو عوامی نمائندہ ہونے پر تذلیل کا نشانہ بنایا گیا انہیں ہراساں کیا گیا۔
عدالت نے عالیہ حمزہ، صنم جاوید کی رہائی کا حکم دے دیا
نوٹ میں لکھا گیا کہ عمران خان بھی عام قیدی نہیں ہیں، ان کے کئی ملین پیروکار ہیں، حالیہ عام انتخابات کے نتائج اس کا ثبوت ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے نوٹ میں مزید لکھا کہ ایس او پیز کا نہ بنا ہونا کیس براہ راست نشر کرنے میں رکاوٹ نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تاثر ہے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے منتخب عوامی نمائندوں سے بدسلوکی کی جاتی رہی۔
شہبازشریف کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹاناخطرناک ہوگا، خورشید شاہ
انہوں نے مزید لکھا کہ غیر امتیازی سلوک کی وجہ سے عوام کی نظر میں نیب کی ساکھ اور غیر جانبداری کو شدید نقصان پہنچا، نیب قانون کے سبب لوگوں کو کئی کئی ماہ حتیٰ کہ کئی کئی سال گرفتار رکھا گیا، نیب کہتا ہے کہ ٹرائل تیس دنوں میں مکمل ہوگا، نیب کی وجہ سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، نیب کی وجہ سے شاہد خاقان عباسی، نوازشریف، یوسف رضا گیلانی کی ناصرف تذلیل کی گئی بلکہ ان کا وقار بھی مجروح کیا گیا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے اختلافی نوٹ میں مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک انٹرویو میں سپر کنگ قرار دیا، بانی پی ٹی آئی نے کہا جنرل (ر) باجوہ نیب کو کنٹرول کر رہے تھے، نواز شریف نے کہا پارلیمنٹ کو کوئی اور چلا رہا تھا، قمر جاوید باجوہ نے ان بیانات کی تصدیق بھی کی اور اپنے ادارے کی سیاست میں مداخلت کو تسلیم کیا۔