الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے اسلام آباد کے 3 حلقوں کے الیکشن ٹربیونل کی تبدیلی پر محفوظ فیصلہ سنا دیا، ٹربیونل تبدیل کرنے کی مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی درخواستیں قابل سماعت قرار دے دی گئیں جبکہ الیکشن کمیشن نے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔
الیکشن کمیشن نے الیکشن ٹربیونل جج کی تبدیلی کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کے کیسز دوسرے ٹربیونل کو منتقل کرنے کی طارق فضل چوہدری، انجم عقیل اور راجہ خرم کی درخواستیں قابل سماعت قرار دے دیں۔
الیکشن کمیشن نے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کردیے جبکہ الیکشن کمیشن کیس کی سماعت 6 جون کو کرے گا۔
اس سے قبل اسلام آباد کے تینوں حلقوں سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب طارق فضل چوہدی ،انجم عقیل اور خرم نواز نے ٹربیونل تبدیل کرنے کی درخواست الیکشن کمیشن میں دائر کی تھی ۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔
وکیل راجہ خرم نواز نے کہا کہ کیس الیکشن ٹربیونل سے منتقل کرنے کی درخواست کی ہے، الیکشن کمیشن سیکشن 151 کے تحت کیس دوسرے ٹریبونل کو منتقل کرنے کا اختیار رکھتا ہے، الیکشن ٹربیونل سی پی سی کے علاوہ کوئی اختیار استعمال نہیں کرسکتا، الیکشن ٹریبونل نے یکطرفہ طور پر جانبدار کاروائی شروع کی ہوئی ہے۔
وکیل نے مزید کہ کہا کہ الیکشن ٹربیونل کی کارروائی سے جانبداری واضح ہے، الیکشن ٹربیونل نے ہمیں موقع دیے بغیر یکطرفہ طور پر کارروائی شروع کی ہے، الیکشن ٹربیونل کے ریمارکس سے میرا مؤکل حراساں ہے، ٹربیونل ٹرائل کورٹ کی بجائے ہائیکورٹ کے اختیارات استعمال کررہا ہے جو غیرقانونی ہے، ٹربیونل ازخود نوٹسز لے رہا ہے جو ٹرائل کورٹ کے زمرے میں نہیں آتا، جانبداری کی وجہ سے ٹریبونل پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہوں۔
این اے 48 میں مبینہ دھاندلی: راجہ خرم نواز، ریٹرننگ افسر پر 15 ہزار روپے جرمانہ عائد
چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا کہ ٹربیونل کے کن احکامات سے آپ جانبداری کا الزام لگا رہے ہیں؟ جس پر وکیل راجہ خرم نواز نے بتایا کہ ٹربیونل نے ہمیں بلائے بغیر جرمانے اور یکطرفہ کارروائی کی،ٹربیونل نے موقع دیے بغیر 15 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا، ٹربیونل کے سپیڈی ٹرائل سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جارہے۔
ممبر الیکشن کمیشن نثار درانی نے پوچھا کہ کیا آپ نے اعتراضات ٹریبونل کے سامنے رکھے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ ہم نے ٹربیونل کے سامنے اعتراضات نہیں رکھے، الیکشن کمیشن کا ریکارڈ ہمیں دکھائے بغیر دوسرے فریق کے ریکارڈ سے موازنہ شروع کردیا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ پہلے اعتراضات ٹریبونل کے سامنے رکھتے، سنوائی نہ ہوتی تو الیکشن کمیشن آتے، کیا آپ کو خوف ہے کہ اپ کو سنے بغیر فیصلہ ہوگا، جس پر وکیل راجہ خرم نواز نے کہا کہ خدشہ ہے ٹربیونل کیس مکمل کیے بغیر عبوری آرڈر جاری کرسکتا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اسلام آباد کی حد تک الیکشن کمیشن نے صرف ایک ٹریبونل قائم کیا ہے، جس پر وکیل راجہ خرم نواز نے کہا کہ الیکشن کمیشن نئے ٹربیونل بنا سکتا ہے، الیکشن کمیشن کسی ریٹائرڈ جج پر مشتمل ٹربیونل بنائے تاکہ آرام سے کارروائی ہو، ٹربیونل جج نے کہا کہ بیان حلفی جعلی ہوا تو ادھر سے جیل بھیج دوں گا۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آگر اپ نے کچھ غلط نہیں کیا تو آپ کو جیل سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیئے، جس پر وکیل نے کہا کہ کسی فریق کو جیل بھجوانا ٹربیونل کا اختیار نہیں ہے، الیکشن کمیشن فوری ٹریبونل کی کاروائی روکنے کے احکامات جاری کرے۔
انجم عقیل کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کمیشن ضرورت کے مطابق زیادہ الیکشن ٹربیونل قائم کر سکتا ہے تاکہ کیسز جلدی نمٹیں، آئینی عدالت کچھ اور ہوتی ہے، الیکشن ٹربیونل کو الیکشن ایکٹ اور رولز کے تحت کام کرنا ہے، الیکشن پٹیشن ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے دفتر میں فائل کی گئیں، جو درست نہیں، رجسٹرار ہائی کورٹ ہر گز الیکشن پٹیشن کو نہیں لے سکتا۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ رجسٹرار کو ٹریبیونل کا رجسٹرار بھی مقرر کیا گیا ہو، یہ اپ اپنے کیس کی ٹرانسفر کی بیس بنا رہے ہیں، آپ کی استدعا کیا ہے، جس پر وکیل عقیل انجم نے کہا کہ ہم کہتے ہیں کہ کسی اور ٹربیوبل میں کیس ٹرانسفر کریں، آپ ہمارے کیسز خیبر پختونخوا کے ٹربیونل میں بھی منتقل کر سکتے ہیں، صرف ٹربیونل کا یہ کہ دینا کہ الیکشن کیسے منعقد ہوئے اس کا تعصب ہونا ظاہر کر دیتا ہے، کیا الیکشن ٹربیونل، الیکشن کمیشن کی ساکھ پر سوال کر سکتا ہے۔
اسلام آباد کے 3 حلقوں میں مبینہ دھاندلی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری
ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ سوال اسلام آباد کے ریٹرنگ افسر تک ہو گا، جس پر وکیل انجم عقیل نے کہا کہ مجھے موقع نہیں دیا گیا، ٹربیونل کا تعصب واضح ہے۔
طارق فضل چوہدری کے وکیل نے کہا کہ منصف کی آواز اتنی اونچیں تھی کہ جوابدہ کی اواز دب گئی، جب اعتراض ہوا کیا ان کو پہلے نہیں دیکھناچاہیے تھا، ہم نے کہا درخواستیں time barred تھیں، سی پی سی اور قانون شہادت کا اطلاق ہوتا ہے، یہ کیسے کہ جیب سے دستاویز نکال کر موازنہ کرے اور کہے کہ فیصلہ ہو گیا ہے۔
وکیل نے مزید کہا کہ ٹربیول قائم ہونے کے بعد انہوں نے 44 ویں دن درخواست دائر کی، ان پر اعتراضات لگائے کہ انھیں سات دن میں پورا کریں، انہوں نے جب دوبارہ پٹیشن دائر کی تو 13 دن کی تاخیر ہو چکی تھی، ہمیں ٹربیونل کہ رہا کہ جیل بھیج دوں گا، جرمانہ کر رہے ۔
دلائل کے بعد الیکشن کمیشن بینچ نے درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا جسے بعد میں سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے درخواستوں کو قابل سماعت قرار دے دیا۔