سپریم کورٹ کی جانب سے عدلیہ مخالف بیان پر توہین عدالت کے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے سابق وفاقی وزیر سینیٹر فیصل واڈا نے غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کردیا جبکہ عدلیہ مخالف بیان پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما مصطفیٰ کمال نےغیرمشروط معافی مانگ لی۔
سابق وفاقی وزیر سینیٹر فیصل ووڈا نے توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کردیا۔
توہین عدالت کیس میں سینیٹر فیصل ووڈا نے توہین عدالت کے شوکاز نوٹس پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا جبکہ ان کا جواب 16صفحات پر مشتمل ہے۔
سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں فیصل واوڈا نے لکھا کہ پریس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی توہین کرنا نہیں تھا، پریس کانفرنس کا مقصد ملک کی بہتری تھا، عدالت توہین عدالت کی کارروائی آگے بڑھانے پر تحمل کا مظاہرہ کرے، توہین عدالت کا نوٹس واپس کیا جائے۔
ساتھ ہی فیصل واڈا نے پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن، سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان اور وزیر اعظم شہباز شریف کی تقریروں کے ٹرانسکرپٹ بھی عدالت میں پیش کر دیے۔
جسٹس بابرستار کو ایک سال بعد چیزیں یاد آرہی ہیں، فیصل واوڈا
جواب میں سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ کسی بھی طریقے سے عدالت کا وقار مجروح کرنے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، سمجھتا ہوں کہ عدالت کا امیج عوام کی نظروں میں بے داغ ہونا چاہیئے، پاکستان کے تمام مسائل کا حل ایک فعال اور متحرک عدالتی نظام میں ہے، آرٹیکل 19 اے کے تحت ملزم نے جسٹس بابر ستار کے گرین کارڑ سے متعلق معلومات کیلئے رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کو خط لکھا، 2 ہفتے گزر جانے کے باوجود جواب موصول نہیں ہوا۔
فیصل واوڈا کا مزید کہنا تھا کہ دفاعی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف مہم زور پکڑ رہی ہے،پاکستان کے مضبوط دفاع کے لیے فوج اور خفیہ اداروں کی مضبوطی ضروری ہے،عدلیہ کے ساتھ فوج اور خفیہ اداروں کی مضبوطی کا انحصار عوامی تائید پر ہے۔
واضح رہے کہ 15 مئی کو سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب پاکستان میں کوئی پگڑی اچھالے گا تو ہم ان کی پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا، 15 روز ہوگئےجواب نہیں آیا، 19 اے کے تحت مجھے جواب دیا جائے، بابر ستار کہتے ہیں کہ جج بننے سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو رپورٹ بھیجی، ہم نے کہا کہ اس کے حوالے سے ریکارڈ روم کے اندر کوئی چیز ہوگی تحریری طور پر لیکن اس کا جواب ہمیں نہیں مل رہا۔
انہوں نے کہا تھا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے آرڈر دیا کہ ہر پاکستانی بات کسی سے بھی پوچھ سکتا ہے تو پاکستانی تو دور کی بات ایک سینیٹر کو جواب نہیں مل رہا تو اب ابہام بڑھ رہا ہے، شک و شبہات سامنے آرہے ہیں کہ اس کے پیچھے منطق کیا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ ایک سال پہلے چیزیں ہوئیں، ایک سال بعد یاد آئیں، تو ایک سال پہلے کیوں نہیں بتایا؟ اب پھر مداخلت ہوئی پرسوں تو الزام لگانے سے کام نہیں چلے گا، اب آپ کو ثبوت دینے پڑیں گے کہ کس نے مداخلت کی، کیوں کی اور اس کے شواہد دیں تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں ورنہ تو میں بھی فون اٹھا کر کہوں کہ جج نے کہہ دیا ہے کہ قتل کردو تو اس کا ٹرائل تھوڑی ہوجائے گا۔
فیصل واڈا نے کہا تھا کہ ہمیں جواب نہیں مل رہا، ہمیں بتایا جائے کہ کیا ریکارڈ کے اندر یہ سب لکھا گیا ہے اور اگر ریکارڈ کا حصہ نہیں تو اس کے نتائج ہوں گے، اطہر من اللہ صاحب تو تاریخی فیصلے کرتے ہیں، میرا گمان ہے کہ وہ اصول پسند آدمی ہیں، وہ کسی دباؤ میں نہیں آتے، کسی سے رات کے اندھیرے میں نہیں ملتے تو وہ ایسی غلطی نہیں کرسکتے کہ انہوں نے تحریری طور پر چیز نہ لی ہو، وہ ریکارڈ ہمیں ملنا چاہیے، ہم اسے کیوں نا مانگیں؟
بعد ازاں 16 مئی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینیٹر فیصل واڈا کی پریس کانفرنس پر از خود نوٹس لے لیا تھا۔
اس سے قبل عدلیہ مخالف بیان پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما مصطفیٰ کمال نے غیر مشروط معافی مانگ لی۔
مصطفی کمال نے بیرسٹر فروغ نسیم کے توسط سے عدلیہ مخالف بیان پر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بیان حلفی جمع کرادیا۔
جج دہری شہریت پر عوامی نمائندے کو گھر بھیج سکتا ہے تو خود اس کیلئے یہ پابندی کیوں نہیں؟ مصطفیٰ کمال
مصطفیٰ کمال نے بیان حلفی میں کہا کہ ججز بالخصوص اعلیٰ عدلیہ کے ججز کا دل سے احترام کرتا ہوں، عدلیہ اور ججز کے اختیارات اور ساکھ کو بدنام کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
مصطفی کمال نے مزید کہا کہ میں عدلیہ سے متعلق اپنے ہر بیان باالخصوص 16 مئی کی پریس کانفرنس پر غیر مشروط معافی کا طلب گار ہوں، معزز عدالت سے معافی کی درخواست اور خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واڈا اور مصطفی کمال کو عدلیہ مخالف بیان دینے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا، دونوں رہنماؤں کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کل ہوگی۔
16 مئی کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پاکستان) کے رہنما مصطفیٰ کمال نے کہا تھا کہ ایک غریب اور مڈل کلاس آدمی بغیر پیسا خرچ کیے انصاف کی امید نہیں رکھ سکتا، ایک جج دہری شہریت پر عوامی نمائندے کو گھر بھیج سکتا ہے تو خود اس کے لیے یہ پابندی کیوں نہیں؟
اسلام آباد میں دیگر رہنماؤں کے ہمرا پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ کیا دہری شہریت پر کوئی شخص رکن قومی اسمبلی نہیں بن سکتا، تمام اداروں میں دہری شہریت کے قوانین لاگو ہونے چاہئیں۔
عدلیہ مخالف بیان پر مصطفیٰ کمال نے غیر مشروط معافی مانگ لی
انہوں نے کہا کہ ملک میں جاری خلفشار کی وجہ سے ریاست میں کشمکش ہے، اس طرح کی سیاسی صورتحال سے ایک سیاسی کارکنان خاموش نہیں رہ سکتا ہے، عدلیہ نے نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر گھر بھیج کر ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ملک میں جعلی ڈگریوں، دہری شہریت پر ایم این ایز، سینیٹرز کو گھر جاتے دیکھا ہے، عدلیہ جیسے ادارہ میں قول و فعل میں تضاد آ رہا ہے، کیا دہری شہریت والے کسی شخص کو عدالت کا جج ہونا چاہیے؟
ان کا کہنا تھا کہ دہری شہریت پر رکن اسمبلی کو گھر بھیج دیاجاتاہے، شریعت عدالت سے سود کے خلاف فیصلہ آیا۔