اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہِ چین کا مقصد زیر غور توسیعی فنڈ سہولت پروگرام اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے فیز ٹو کے آغاز تک چینی کمپنیوں کو زیر التوا کنٹریکٹ کی ذمہ داریوں میں تاخیر، رول اوور اور بجٹ سپورٹ قرضوں کو ری شیڈول کرنا ہے۔
اس بات کا انکشاف مختلف اسٹیک ہولڈرز نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیا۔ آزاد اقتصادی ماہرین نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ ’خواہش کی فہرست بہت ’چاہ طلب اور مشکوک‘ ہے کہ آیا چین فہرست میں شامل تینوں چیزوں کو منظور کرے گا۔
واضح رہے کہ وزیراعظم شہبازشریف آج چین کے دورے پر روانہ ہوں گے۔ ان کا یہ 4 روزہ سرکاری دورے ہوگا جس میں اقتصادی تعلقات سے متعلق اہم فیصلے متوقع ہیں۔
ان کا مؤقف تھا کہ چینی کمپنیوں کے زیر التوا معاہدوں کے واجبات میں تاخیر کا تعلق سی پیک کے فیز ٹو کے آغاز سے ہے اور چینی پہلے ہی اعلیٰ سطح کے پاکستانی وفود کو بتا چکا ہے کہ وہ معاہدوں کی شرائط پر دوبارہ بات چیت نہیں کرے گا۔
اس حوالے سے وزارت خزانہ کے حکام سے ایجنڈے کے آئٹمز پر جواب طلب کیا تو انہوں نے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔ وزیر خزانہ سے وابستہ چند لوگوں نے صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا۔ ذرائع نے مزید کہا کہ یہاں تک کہ وہ عملہ جو گزشتہ برسوں میں رواں سال کے بجٹ کی مشق میں مصروف تھے تذبذب کا شکار ہیں۔
خیال رہے کہ وفاقی بجٹ پیش کرنے کی تاریخ ابھی تک طے نہیں ہوئی ہے اور آزاد معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا اس لیے ہو سکتا ہے کہ جب تک چین پاکستان کی طرف سے مانگی گئی حمایت میں توسیع نہیں کرتا، آئی ایم ایف نئے پروگرام کے پہلے مرحلے پر اسٹاف لیول کے معاہدے پر رضامند نہیں ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم سی پیک کے تحت زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، توانائی اور متبادل توانائی میں چینی تعاون کو محفوظ بنانے کی امید رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں وفاقی وزارتوں کو دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے نئے منصوبے تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔