ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں اعتراف کیا کہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ٹھوس اقدامات کے لیے وفاقی وصوبائی حکومتوں کارویہ سنجیدہ نہیں ہے۔
سپریم کورٹ میں موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت وفاقی حکومت نے موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کےقیام کا نوٹی فکیشن پیش کیا۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اتھارٹی تو قائم ہوگئی فعال کب ہوگی؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اتھارٹی کےممبران کی تعیناتی کیلئےاشتہارجاری کردیا، آئندہ دو ماہ میں عمل مکمل ہوگا۔
جسٹس منصورشاہ نے استفسار کیا کہ موسمیاتی تبدیلی کیلئےکوئی ٹھوس اقدام کیا ہےتوبتادے۔ جس پرایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اعتراف کیا کہ ’اس میں شک نہیں کہ وفاقی وصوبائی حکومتوں کارویہ سنجیدہ نہیں ہے‘۔
عدالت نے استفسار کیا کہ پنجاب حکومت ابتک موسمیاتی تبدیلی پالیسی کیوں نہیں بناسکی؟ پنجاب حکومت نے سیلاب سےنمٹنےکیلئےکیا اقدامات کیے؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ متعلقہ محکموں سے رپورٹس منگوائی ہیں۔ عدالت میں ریمارکس دیے گئے کہ حیرت ہے موسمیاتی تبدیلی پنجاب حکومت کی ترجیحات میں نہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب موسمیاتی تبدیلی پرکوئی عمل اقدام پیش نہ کرسکے۔ علاوہ ازیں ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے بلین ٹری سونامی منصوبہ شروع کیا تھا، منصوبےکے تحت 70 لاکھ درخت لگائے گئے۔
ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ اقوام متحدہ نے بھی بلین ٹری سونامی منصوبے کو تسلیم کیا۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ بلین ٹری منصوبے کے تحت لگائے آدھے درخت ختم ہوچکے ہیں، صرف درخت لگانا نہیں ہوتاانکی دیکھ بھال بھی کرنی ہوتی ہے۔
بعدازاں عدالت نے مزید سماعت یکم جولائی تک ملتوی کر دی۔