اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انھیں بری کردیا۔ عدالت نے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ اگر کسی اور کیس میں گرفتار نہیں تو رہا کر دیا جائے، کیس سے بریت کی وجوہات بعد میں تفصیلی فیصلے میں جاری کی جائیں گی۔
سائفر کیس میں سزا کیخلاف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پراسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔
وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت عالیہ نے سائفر کیس میں سزا کے خلاف سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کیا، بعد ازاں فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ سزا کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلیں منظور کر لیں۔
فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت اسلام آباد ہائیکورٹ میں موجود تھی۔ پارٹی چئیرمین بیرسٹرگوہر،علی محمد خان، فیصل جاوید اور شاندانہ گلزار بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔ عمران خان کی بہنیں اور شاہ محمود قریشی کی اہلیہ اور بیٹیاں بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔
واضح رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی بریت کا تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا گیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان کی سائفرکیس میں سزا کے خلاف اپیل منظور کی جاتی ہے، ٹرائل کورٹ کا 30 جنوری 2024 کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، عمران خان کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت الزامات سے بری کیا جاتا ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق عمران خان کے خلاف 15 اگست 2023 کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوا، ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیررازم ونگ نے عمران خان کے خلاف مقدمہ درج کیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپیلوں پر تحریری حکم نامے میں لکھا کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمہ کے تمام الزامات سے بری کیا جاتا ہے۔ اگر وہ کسی اور کیس میں گرفتار نہیں تو رہا کر دیا جائے۔
کیس سے بریت کی وجوہات بعد میں تفصیلی فیصلے میں جاری کی جائیں گی۔
سابق چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے پرسکیوٹر کی جانب سے کہا گیا کہ ہم نے 342 میں گناہ تسلیم کیا ہے، سکریٹریٹ رولز کے مطابق اعظم خان جوابدہ ہیں ان سے پوچھا جانا چاہیے، سکریٹریٹ رولز کا ذکر حامد علی شاہ نے یہاں نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں :
کیا شاہ محمود قریشی سائفر کیس میں بری ہوسکیں گے ؟
عمران کو جیل سے جلدی باہر آتا نہیں دیکھ رہا، اپنے لیے خود رکاوٹیں کھڑی کیں،اعتزاز
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اس سے متعلق کوئی دستاویز نہیں کہ اعظم خان نے سائفر سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو دیا، اگر سائفر گم ہوگیا تو پھر سائفر پاس رکھنے کا چارج کیسے لگ سکتا ہے؟ ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ سائفر وصولی سے متعلق تو آپ کے کلائنٹ کا اپنا اعتراف بھی موجود ہے، جس پر سلمان صفدر نے کہا یہ تو پراسیکیوشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ بات ثابت کریں، قانون بڑا واضح ہے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں، پراسیکیوشن نے کیس ثابت کرنے کی ذمہ داری پوری کرنی ہے، اگر 342 کا بیان لینا ہے تو مکمل بیان کو لیا جائے گا ٹکڑوں میں بیان نہیں لے سکتے۔
سلمان صفدر نے مزید کہا کہ رات بارہ بجے تک سماعت ہو رہی ہے صبح آٹھ بجے سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کا بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے، جب 342 کا بیان ریکارڈ ہو اسی دن فیصلہ بھی سنا دیا گیا۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ لاپرواہی کا الزام جو سابق چیئرمین پی ٹی آئی پر لگا ہے یہ الزام ان ہر لگتا ہی نہیں، 4 گواہان کے مطابق سائفر کی حفاظت اعظم خان کی ذمہ داری تھی، دو سال تحقیقات ہوئیں اس کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی، جو 8 کاپیاں لیٹ آئیں انکے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی، جب ثبوت کو ضائع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو 201 لگتی ہے سائفر تو انکے پاس موجود ہے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ پراسیکیوشن یہ بات کرتی رہی کہ سائفر کے بغیر کیس سنا جا سکتا ہے، جب ثابت کرنے کا وقت آیا میدان چھوڑ کر بھاگ گئے ، پھر بعد میں اضافی ثبوت دینے کی درخواست دے دی، تین چیزوں کو میں عدالت میں بیان کرنا چاہتا ہوں، تین چیزیں عدالت میں پیش نہیں کی گئیں۔ سائفر ڈاکومنٹ نہیں آیا ، سائفر کا کانٹینٹ اور سائفر بک لیٹ ٹرائل کورٹ میں پیش کی گئی، سائفر سے متعلق بک لیٹ راجہ رضوان عباسی نے ٹرائل کورٹ میں پیش نہیں کی اور شاہ صاحب ہائیکورٹ میں لے آئے، سائفر دستاویز اس سائفر کا متن ریکارڈ پر نہیں آیا ، راجہ رضوان عباسی ٹرائل کورٹ، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں کہتے رہے کلاسیفائیڈ سیکیورٹی بک عدالت میں پیش نہیں کرسکتے، پھر حامد علی شاہ نے کہا کہ بک دے سکتے ہیں کیونکہ قوانین موجود ہیں۔
وکیل نے مزید کہا کہ اعظم خان خود کہتے ہیں کہ سائفر گم ہوگیا، دفتر خارجہ کو آگاہ کر دیا ہے، اعظم خان نے اپنے بیان میں بتایا ملٹری سکریٹری ، اے ڈی سی اور دفتر کا اسٹاف ڈھونڈتا رہا، دفتر خارجہ کو آگاہ کرنے کے بعد آئی بی نے انکوئری کرنی تھی جو نہیں کی گئی۔ عدالت سے استدعا کی کہ ملزمان کو تمام چارجز سے ڈسچارج کیا جائے۔
’ہم صرف آپ کے لئے بیٹھے رہیں اور کوئی کام نہیں‘
آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر عدالت کے سامنے پیش ہوئے تو وکیل پراسیکیوشن نے بتایا کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذوالفقارعباسی نقوی 20 منٹ میں آرہے ہیں۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم نے ریگولرڈویژن بینچ کینسل کیا ہے، کیا حامد علی شاہ نے وکالت نامہ واپس لے لیا ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حامد علی شاہ سے ابھی بات ہوئی وہ والدہ کے پاس معروف ہسپتال میں ہیں۔ کچھ دیر بعد عدالت نے ایف آئی اے پر اسیکیوٹر کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ ’ہم صرف آپ کے لئے بیٹھے رہیں اور کوئی کام نہیں‘۔
بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے لیے سرکاری وکلا صفائی سے عدالت کا مکالمہ
جسٹس حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ آپ نے اس سے پہلے سزائے موت کا کوئی ٹرائل کیا ہے؟ عدالت کی ٹرائل میں سرکاری وکلا صفائی کو ہدایت کہ ان مقدمات کی تفصیل جمع کرا دیں۔
وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ اگر سائفر گم گیا تو پھر سائفر پاس رکھنے کا چارج کیسے لگ سکتا ہے؟ یہ کیسا چارج ہے کہ سائفر پاس رکھ لیا، گم گیا یا کسی کو دے دیا۔
وکیل سلمان صفدر کا جسٹس گل کہنے پر جسٹس میاں گل حسن کا مکالمہ
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ میرا نام حسن ہے، میاں گل اورنگزیب خاندانی نام ہے اس لیے آپ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کہیں اور یا آپ جسٹس حسن کہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر پی ٹی آئی کے وکلا سے دلائل طلب کرلیے تھے۔
اس سے قبل سماعت میں عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نے سزا کے خلاف اپیلوں پر دلائل کا آغاز کردیا جبکہ عدالت نے فریقین کو 11 مارچ مکمل تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کردی تھی۔