افغانستان کی طالبان کی حکومت نے بشام حملے پر پاکستانی تحقیقات کے نتائج کو مسترد کردیاہے، پاکستان نے چینی شہریوں پر ہوئے اس حملے کی ذمہ داری افغانستان میں موجودعسکریت پسندوں کو قرار دیا تھا۔
امریکی خبر رساں ادارے ”وائس آف امریکہ“ کے مطابق طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک افغان نیوز چینل کو بتایا کہ ان کے ملک کا 26 مارچ کو شمال مغربی پاکستان میں چینی شہریوں پر ہونے والے حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے۔
انہوں طلوع ٹی وی کو دئے گئے اپنے بیان میں کہا کہ ’پاکستان کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ افغانستان اور چین کے درمیان اعتماد کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔ ہم نے بارہا اس رپورٹ کو غیر منطقی قرار دیتے ہوئے تردید کی ہے‘۔
چین افغانستان کے ساتھ تعلقات میں مسلسل بہتری لارہا ہے، کابل میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد بیجنگ کابل میں نیا سفیر مقرر کرنے والا پہلا اور طالبان کے سفیر کو باضابطہ طور پر قبول کرنے والا پہلا ملک تھا۔
ذبیح اللہ مجاہد کا یہ ردعمل جمعرات کو پاکستانی وفد کی جانب سے دورہ کے دوران طالبان ہم منصبوں کے ساتھ تحقیقات کے نتائج کا اشتراک کرنے کے ایک روز بعد آیا۔
بشام حملے کے متاثرین شمال مغربی پاکستان میں چین کے فنڈ سے چلنے والے ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعے کو اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں بتایا کہ پاکستانی وفد نے افغان حکام سے چینی کارکنوں پر دہشت گردانہ حملے کے ذمہ داروں کو پکڑنے کے لیے مدد کی درخواست بھی کی ہے جس کی بنیاد پر ”ٹھوس ثبوت“ پاکستان نے ان کے ساتھ شیئر کیے تھے۔
ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا، ’افغان فریق نے اپنی سرزمین کو کسی بھی دہشت گردانہ سرگرمی کے لیے استعمال کرنے سے روکنے کا عہد کیا ہے، اور انہوں نے تحقیقات کے نتائج کا جائزہ لینے اور تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔‘
پاکستانی فوج اور سویلین حکام کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) ایک عالمی سطح پر نامزد دہشت گرد گروپ ہے جس نے افغان پناہ گاہوں سے چینی اہلکاروں پر حملے کی منصوبہ بندی کی۔
یہ عسکریت پسند گروپ برسوں سے پاکستان میں مہلک حملے کرتا رہا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے مفرور رہنما اور جنگجو تقریباً تین سال قبل طالبان کے دوبارہ ملک پر قبضے کے بعد افغانستان میں پناہ گاہوں میں منتقل ہو گئے تھے اور اس کے بعد انہوں نے سرحد پار سے حملوں میں شدت پیدا کر دی ہے۔
طالبان نے مسلسل اس بات کی تردید کی ہے کہ غیر ملکی شدت پسند گروپ افغانستان میں موجود ہیں اور وہ اپنی سرزمین کو بیرونی ممالک کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم ناقدین نے ان دعوؤں پر سوال اٹھایا ہے۔
رواں ماہ، کانگریس کو امریکی حکومت کی سہ ماہی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ حکمران طالبان نے القاعدہ کے سینئر رہنماؤں، ٹی ٹی پی اور دیگر باغی گروپوں کو افغانستان میں کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
روس کے وزیر دفاع آندرے بیلوسوف نے جمعے کو کہا کہ افغانستان کی صورتحال خطے میں ’عدم استحکام کا بنیادی ذریعہ بنی ہوئی ہے‘۔
روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ”تاس“ نے قازقستان میں علاقائی وزرائے دفاع کے اجلاس کو بتاتے ہوئے کہا کہ ’متعدد بنیاد پرست گروہوں نے وہاں قدم جما لیے ہیں، اور پڑوسی ممالک میں اپنے نظریات کو فروغ دینے کی کوششیں تیز کر دی ہیں‘۔
اس سال کے شروع میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان ٹی ٹی پی کے ساتھ ”ہمدردی“ رکھتے ہیں اور اسے ہتھیار اور سازوسامان فراہم کرتے ہیں، اور مبینہ طور پر کچھ طالبان ارکان نے پاکستان کے خلاف سرحد پار حملے کرنے کے لیے ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔