حکومت نے سالِ رواں کے ترقیاتی پروگرام میں 204 ارب روپے کی کٹوتی کردی ہے۔ سرکاری دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں بجٹ کا توازن برقرار رکھنے کی غرض سے 30 فیصد (184 ارب روپے) کی کٹوتی کی گئی۔ اس کے نتیجے میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حجم 950 ارب روپے سے گھٹ کر 746 ارب روپے ہوگیا۔
مالی سال کے دوران 20 ارب روپے غیر ترقیاتی مدوں میں خرچ کردیے گئے۔ چوتھی سہ ماہی میں بجٹ کا توازن برقرار رکھنے کی غرض سے 20 فیصد کمی کی گئی جو 184 ارب روپے کے مساوی تھی۔
30 مئی 2024 کو سالانہ ترقیاتی پروگرام کی یوٹیلائزیشن پوزیشن 379 ارب روپے کی سح پر تھی۔ ان میں 331 ارب تو روپے کی شکل میں تھے جبکہ 48 ارب روپے بیرونی امداد کی مد میں تھے۔ مختص کی گئی فنڈنگ کے مقابل آتھورائزیشن 487 ارب روپے کی تھی۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق 6 جون 2023 کو نیشنل اکنامک کونسل نے 75 ارب روپے کی بیرونی امداد کے ساتھ 950 ارب روپے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کی منظوری دی تھی۔ بجٹ سے ہٹ کر 200 ارب روپے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے لائے جانے تھے۔ اس میں سندھ کے لیے فلڈ ریلیف فنڈ کی مد میں 25 ارب روپے بھی شامل تھے۔
نیشنل اکنامک کونسل کی منظوری کردہ پالیسی کے بجائے چاروں سہ ماہیوں کے لیے فائنانس ڈویژن نے 15، 20، 25 اور 40 فیصد فنڈ ریلیز کی حکمتِ عملی اپنائی۔ پہلی سہ ماہی میں 131 ارب ریلیز کیے گئے جن میں 61 ارب روپے ایس ڈی جیز اسکیم کے لیے تھے۔
تمام کٹوتیوں کے بعد سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حتمی حجم 717 ارب روپے ہوگیا۔ وفاق کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں صوبوں کا حصہ 33 فیصد تھا جبکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ترقیاتی منصوبے صوبوں کی ذمہ داری ہیں۔ صوبائی ترقیاتی منصوبوں کی شمولیت سے سالانہ ترقیاتی پروگراموں میں قومی اہمیت کے منصوبوں کے پنپنے کی گنجائش کم رہ گئی۔ دوسری طرف مالی سال کے دوران بیرونی اداروں کی طرف سے ملنے والے 300 ارب روپے بجٹ میں پیدا ہونے والا خلا پُر کرنے کی غرض سے استعمال کرنے کے لیے بھی دباؤ میں اضافہ ہوا۔
حکومت نے 102 ارب روپے بیرونی فنڈز سے چلنے والے منصوبوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مختص کیے۔ مزید برآں، پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسرز کو بجٹ میں مختص رقوم کی دوبارہ تطبیق کی اجازت دی گئی۔ قومی اہمیت کے حامل، بیرونی امداد سے چلنے والے اور تیزی سے تکمیل کی طرف رواں منصوبوں کے لیے، تطبیق کے ذریعے، 65 ارب روپے مختص کیے گئے۔