اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمعہ کو شاعر احمد فرہاد کیس کی سماعت ہوئی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے معاملے کو ختم کرنے کی استدعا کے ساتھ یہ موقف اپنایا کہ احمد فرہاد کی گرفتاری کا معاملہ آزاد کشمیر کا ہے جو غیرملکی علاقہ ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا کہ آزاد کشمیر فارن ٹیرٹری ہے جس کا اپنا آئین اور اپنی عدالتیں ہیں، آزاد کشمیر میں پاکستانی عدالتوں کے فیصلے غیر ملکی عدالت کے فیصلوں کے طور پر پیش ہوتے ہیں۔
سرکار کے اس موقف پر سوشل میڈیا پر ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ احمد فرہاد کی اہلیہ کی وکیل وکیل ایمان زینب مزاری نے سماعت کے بعد کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جو کشمیر کو فارن ٹیریٹری کہا یہ مناسب بات نہیں تھی۔
ایمان زینب مزاری نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے بیان کو دلچسپ بھی قرار دیا۔
صحافی حامد میر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا کہ ’پاکستان کی ریاست آزاد کشمیر کو ایک بہت منفی نقطہ نظر سے پیش کر رہی ہے۔ انہوں نے اسلام آباد سے ایک شاعر کو اغوا کیا، ان میں اخلاقی جرت نہیں کہ وہ اس کے اغوا کا اعتراف کریں اور اب انہوں نے یہ گرفتاری آزاد کشمیر میں ظاہر کی اور اسلام آباد ہائیکورٹ کو بتایا کہ آزاد کشمیر ایک غیرملکی علاقہ ہے۔ اس کا مطلبہ ہے کہ ان کی آزاد کشمیر پر قابض فورس کی اتھارٹی ہے لیکن پاکستانی عدالتوں کی وہاں کوئی عمل دراری نہیں۔‘
سوشل میڈیا پر کئی دیگر لوگوں نے بھی حکومتی موقف پر سوالات اٹھائے ہیں۔ دوسری جانب کئی لوگوں نے کہا کہ آزاد کشمیر پاکستان سے الگ علاقہ ہے۔
کیا آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں؟ اس سوال کا جواب آئین پاکستان کے آرٹیکل ایک میں موجود ہے جس میں پاکستان کا حدود و اربعہ بیان کیا گیا ہے۔
آرٹیکل ایک کی شق نمبر دو میں تحریر ہے کہ پاکستان کی حدود بلوچستان، خیبرپختونخوا، پنجاب اور سندھ کے صوبوں اور وفاقی دارالحکومت پر مشتمل ہوگی۔ اس کے علاوہ وہ ریاستیں اور علاقے بھی پاکستان کا حصہ ہوں گے جو پاکستان میں شامل کیے جائیں خواہ وہ الحاق کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے۔
آرٹیکل ون کی شق نمبر تین میں درج ہے کہ نئی ریاستوں اور علاقوں کو پارلیمنٹ ان شرائط پر پاکستان میں شامل کر سکتی ہے جو اسے مناسب معلوم ہوں۔
آرٹیکل ایک کا انگریزی متن ذیل ہے۔
1 The Republic and its territories
(1) Pakistan shall be a Federal Republic to be known as the Islamic Republic of Pakistan, hereinafter referred to as Pakistan.
(2) The territories of Pakistan shall comprise:-
(a) the Provinces of Balochistan, the Khyber Pakthunkhwa, the Punjab and Sindh;
(b) the Islamabad Capital Territory, hereinafter referred to as the Federal Capital;
(c) and such States and territories as are or may be included in Pakistan, whether by accession or otherwise.
(3) Majlis-e-Shoora (Parliament) may by law admit into the Federation new States or areas on such terms and conditions as it thinks fit.
آس آرٹیکل میں کہیں بھی آزاد کشمیر کا گلگت بلتستان کا ذکر نہیں لیکن ان سمیت دیگر علاقوں کی پاکستان میں شمولیت کا راستہ ضرور موجود ہے۔
پاکستان کے آئین میں کشمیر کا ذکر آرٹیکل 257 میں کیا گیا ہے جس میں درج ہے کہ جب ریاست جموں کشمیر کے لوگ پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں گے تو پاکستان اور ریاست کے درمیان تعلق کا فیصلہ ریاست کے عوام کی مرضی کے مطابق کیا جائے گا۔
257 Provision relating to the State of Jammu and Kashmir.When the people of the State of Jammu and Kashmir decide to accede to Pakistan, the relationship between Pakistan and the State shall be determined in accordance with the wishes of the people of that State.
آزاد جموں کشمیر کی حدود آزاد کشمیر اسمبلی سے 1974 میں منظور کردہ ایکٹ کے تحت وضع کی گئی ہیں۔
آزاد جموں کشمیر گورنمنٹ بل 1974 کی منظوری کے ذریعے قائم ہونے والے اس ایکٹ کو آزاد جموں کشمیر عبوری آئین اور ایکٹ VIII بھی کہا جاتا ہے۔
اس ایکٹ یعنی آزاد کشمیر کے آئین میں درج ہے کہ آزاد جموں کشمیر سے مراد ریاست جموں و کشمیر کے وہ علاقے ہیں جنہیں اس ریاست کے عوام نے آزاد کرا لیا ہے اور وہ فی الوقت حکومت کے زیر انتظام ہیں اور وہ علاقے بھی جو اس (حکومت) کے انتظام میں آئیں گے۔
Azad Jammu and Kashmir’ means the territories of the Stateof Jammu and Kashmir which have been liberated by thepeople of that State and are for the time being under theadministration of Government and such other territories as mayhereafter come under its administration
تاہم اس ایکٹ میں گلت، ہنزہ اور بلتستان کو آزاد کشمیر کا حصہ نہیں قرار دیا گیا۔
اس ایکٹ کے تحت ہی آزاد کشمیر کا آئینی ڈھانچہ قائم ہے۔ آزاد کشمیر کا اپنا صدر اور وزیراعظم ہے۔ اس کا عدالتی نظام بھی اپنا ہے۔ اسی طرح وہاں کی پولیس بھی الگ ہے۔
آزاد کشمیر کی اسمبلی بھی اسی عبوری کے تحت کام کرتی ہے۔
ریاست جموں کشمیر کا اصل آئین 1939 میں منظور کیا گیا تھا۔ آزادی کے بعد جب ریاست کے ایک بڑے حصے پر بھارت نے قبضہ کرلیا تو 1957 میں مقبوضہ کشمیر کے آئین میں ترامیم کی گئیں۔
آزاد کشمیر کا انتظام 1970 تک بغیر کسی باضابطہ آئین کے تحت چلایا گیا۔ تاہم 1970 میں آزاد کشمیر اسمبلی نے ایک ایکٹ منظور کیا جو آزاد کشمیر کا پہلا آئین بنا۔ جب 1973 میں پاکستان کا نیا آئین منظور ہوا تو اس آئین کی بنیاد پر آزاد کشمیر اسمبلی نے 1974 کا ایکٹ یا آئین منظور کیا۔