عدالت نے مسلمان مرد کی ہندو خاتون سے شادی کو بے بنیاد قرار دے دیا۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں ایک ایسا کیس سامنے آیا جس میں بھارتی عدالت نے مسلمان مرد اور ہندو عورت کے درمیان شادی کو مسلم پرسنل لاء کے تحت غلط قرار دیا۔
عدالت نے اسپیشل میرج ایکٹ 1954 کے تحت بین المذاہب شادی کو رجسٹر کرنے کے لیے پولیس تحفظ کی درخواست کو بھی مسترد کردیا۔
رپورٹ کے مطابق مدھیہ پردیش عدالت کے جج جسٹس گرپال سنگھ نے کہا کہ ایک مسلمان مرد اور ہندو عورت کے درمیان شادی کو مسلم قانون کے تحت ”بے قاعدہ“ شادی تصور کیا جائے گا، چاہے وہ اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت ہی شادی شدہ کیوں نہ ہوں۔
ہائی کورٹ نے 27 مئی کو اپنے حکم میں کہا کہ مسلم قانون (Mahomedan law) کے مطابق،بُت پرست خاتون کی مسلمان مرد کے ساتھ شادی جائز نہیں۔
عدالت کی جانب سے یہ مشاہدات ایک جوڑے ( ایک مسلم مرد اور ایک ہندو عورت) کی طرف سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کرتے ہوئے دیے گئے۔
خاتون کے اہلخانہ کی جانب سے اس بین المذاہب شادی کی مخالفت کی گئی اور انہوں نے اس حوالے سے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر یہ شادی ہوئی تو خاندان کے لوگ اُس سے دور ہوجائیں گے۔
خاتون کے اہلخانہ نے دعویٰ ظاہر کیا کہ ہماری بیٹی نے مسلمان مرد سے شادی کرنے سے قبل اس کے گھر سے زیورات لیے۔
ان کے وکیل کے مطابق مذکورہ جوڑا اِسپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی کرنا چاہتا تھا مگر خاتون اپنا مذہب تبدیل کرنے پر راضی نہیں تھی جبکہ لڑکا بھی اپنا مذہب تبدیل کرنے کے حق میں نہیں تھا۔
ہائی کورٹ کا مزید کہنا تھا کہ اسپیشل میرج قانون کے تحٹ اس شادی کو قانونی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ خصوصی میرج ایکٹ کی دفعہ 4 کے مطابق اگر فریقین ممنوعہ رشتے میں نہیں ہیں،تب یہ شادی جائز ہے۔