سعودی عرب جانے والی پرواز سے بحریہ ٹاؤن کے تین عہدیداروں کو ’آف لوڈ‘ کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’بحریہ ٹاؤن کے تین عہدیداروں کو سعودی عرب جانے والی پرواز سے کیوں اتارا گیا؟ یہ وہ سوال ہے جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک کیس میں حکومت کے سامنے رکھا ہے اور اس کی سماعت آج متوقع ہے۔
یہ سوال ریٹائرڈ بریگیڈیئرز طاہر بٹ اور ظفر اقبال شاہ اور منظور حسین مغل کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے دائر تین الگ الگ درخواستوں کے سلسلے میں کیا گیا تھا، جن میں سے ہر ایک کو الگ بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔
نیب ٹیم کا بحریہ ٹاؤن کے راولپنڈی دفتر پر چھاپہ وعدہ معاف گواہ نہیں بنوں گا، ملک ریاض
طاہر بٹ بحریہ ٹاؤن کے لیے ’لینڈ سیکیورٹی‘ کے سربراہ ہیں، ظفر اقبال شاہ زمین سے متعلق معاملات کو بھی دیکھتے ہیں، جب کہ منظور حسین مغل متنازع پراپرٹی ڈویلپر ملک ریاض کے تمام رئیل اسٹیٹ پروجیکٹس کے لیے چیف سرویئر کے اہم عہدے پر فائز ہیں۔
بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض دونوں ہی حال ہی میں اس وقت سرخیوں میں ہیں جب بااثر پراپرٹی ٹائیکون کی جانب سے سوشل میڈیا پر کچھ غیر معمولی پوسٹس کی گئیں، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان پر سیاسی رخ اختیار کرنے کا دباؤ ہے۔ قومی احتساب بیورو اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے رئیل اسٹیٹ فرم کے راولپنڈی کے دفاتر پر چھاپہ مارا۔
عدالت میں بحریہ ٹاؤن کے تینوں عہدیداروں نے استدعا کی کہ انہیں عمرہ کی ادائیگی کے لیے اسلام آباد ایئرپورٹ پر سعودی عرب جانے والی پرواز سے امیگریشن عملے نے اتارا۔
عرفان صدیقی نے عارف علوی کی ’ککر پھٹنے‘ والی ٹوئٹ کا جواب دیدیا
تینوں کیسز میں سے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے درخواست کو نمٹاتے ہوئے اسے وزارت داخلہ کو بھیج دیا جبکہ جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو نوٹس جاری کیے۔
جواب میں ایف آئی اے نے انٹیگریٹڈ بارڈر مینجمنٹ سسٹم (آئی بی ایم ایس) کی ’اسٹاپ لسٹ ڈاکومنٹ‘ جمع کرائی، جس کے مطابق جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی کی سفارش پر تینوں افراد کو پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں رکھا گیا۔
ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے کہا کہ درخواست گزاروں کو انٹیلی جنس ایجنسی کی سفارش پر بلیک لسٹ/پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا گیا۔
بعدازاں عدالت نے وزارت دفاع سے کہا کہ وہ وضاحت کرے کہ ان کے نام سٹاپ لسٹ میں کیوں ڈالے گئے، اور توقع ہے کہ آج جب معاملہ اٹھایا جائے گا تو جواب دیا جائے گا۔