پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن کا کہنا ہے کہ صاحب اقتدار اور طاقتور لوگوں کی ایک کوشش یہ ہے ان کیسز میں جو ختم ہوچکے ہوں اور جج صاحبان نے جن کا فیصلہ سنانا ہے ان کو جتنا زیادہ مؤخر کیا جاسکے مؤخر کیا جائے، تاکہ خان صاحب اس وقت تک قید میں رہیں جب تک ان کے خلاف کوئی اور بھونڈا مقدمہ نہیں بنایا جائے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رؤف حسن نے کہا کہ توشہ خانہ میں چوتھا مقدمہ بنانے کی تیاریاں ہیں، قانون ہے کہ ایک معاملے میں ایک مقدمہ بن سکتا ہے۔ لیکن ان کی کوشش ہے کہ چوتھا مقدمہ بنا کر اس میں خان صاحب کو پہلے سزا دلوائی جائے پھر جو پرانے ختم ہوچکے مقدموں کے فیصلے آںے ہیں انہیں آنے دیا جائے۔
عمران خان کو اڈیالہ جیل میں میسر سوشل میڈیا استعمال کرنے کی سہولت ختم کی جائے، شرجیل میمن
انہوں نے کہا کہ اس طرح خان صاحب کو جیل میں مزید وقت گزارنا پڑے گا، جیسے کہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں رہائی متوقع ہونے پر ان کے خلاف ایک ساتھ 8 مقدمات لگا دئے۔
رؤف حسن کا کہنا تھا کہ ہم ریاست کو کمزور ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں، ہر گزرتے دن کے ساتھ ریاست پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے، عمران خان کو جیل میں رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدت اور سائفر کیس مکمل طور پر ختم ہوچکے ہیں، توشہ خانہ میں بھی بانی پی ٹی آئی کی سزا معطل ہوچکی ہے، انہیں اب تک جیل سے باہر آجانا چاہئے۔
رؤف حسن نے کہا کہ 1971 میں بھی عوام کا فیصلہ نہ ماننے پر بنگلہ دیش بنا تھا، آج بھی اقتدار کو طول دینے کیلئے ریاست کو داؤ پر لگایا جارہا ہے۔
رؤف حسن نے کہا کہ انصاف کا قتل اور ریاست کو کمزور ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، میں تو کہتا ہوں کہ اس ملک کا مسئلہ اسٹیبلشمنٹ کی ملکی مسائل میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت ہے کہ وہ وزیر اعظم کو نکالتے ہیں اور انہیں واپس لے آتے ہیں، اس کے لیے ہماری جدوجہد جاری رہے گی اور آج بھی ہم نے اسی اسٹیبلشمنٹ کا ایک گھناؤنا چہرہ عدت کیس کے سلسلے میں کمرہ عدالت میں دیکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شاعر احمد فرہاد کا کیس بھی آپ کے سامنے ہے اور اتنے دن حبس بے جا میں رکھنے کے بعد پہلے آزاد کشمیر باغ کے کسی پولیس اسٹیشن میں اس کو لایا گیا اور پھر مظفرآباد میں کوئی کیس درج ہے تو وہاں بھیجا گیا، حقائق پر مبنی ایک نظم لکھنے کی پاداش میں ایک انسان کے پچھلے ایک یا سوا مہینے میں کیا ہوا۔
ترجمان نے کہا کہ تحریک انصاف کے بیانیے کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کیا جا رہی ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کے پیچھے کونسی طاقتیں کارفرما ہیں، 1971 کے سانحے کے حوالے سے غلط باتیں پھیلائی جا رہی ہیں، حمودالرحمٰن کمیشن میں کہیں بھی فوج کے بارے کوئی غلط بات نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ حمودالرحمٰن کمیشن میں کہا گیا کہ فوج بہت بہادری سے لڑی اور یہ قیادت کی ناکامی تھی، اس میں ایک شخص کی بات بار بار کیا گیا جس کا نام یحییٰ خان تھا، اس نے اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لیے ریاست کو داؤ پر لگایا اور ریاست کے دو ٹکڑے ہوئے۔
رؤف حسن نے کہا کہ یہ 1971 کی بات ہے جب ایک مطلق العنان شخص نے اپنے اقتدار کو طوالت بخشنے کے لیے ریاست کو داؤ پر لگایا اور 54 فیصد ریاست ایک آزاد ملک بن گیا، تو ہم دونوں کا موازنہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ آج بھی ایک شخص واحد اپنی آمریت، اقتدار کو طوالت دینے کے لیے پچھلے دو سال سے ریاست کو داؤ پر لگایا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس زعم میں ہیں کہ مشرقی پاکستان ایک ہزار میل دور تھا تو وہاں لڑنا اتنا آسان نہیں تھا جتنا یہاں ہو گا، ہم اس زعم میں ہیں کہ یہاں ملک کا کوئی حصہ الگ نہیں ہونے دیں گے، لیکن اگر آپ طائزانہ نظر ڈالیں تو پاکستان کی چھ اکائیاں ہیں، کیا ہم نے پاکستان کی شکل صرف سندھ اور پنجاب کی شکل میں دیکھنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو شخص اپنے اقتدار کو طوالت دینے اور اپنی آمریت کو برقرار رکھنے کے لیے ریاست کے مستقبل کو داؤ پر لگایا ہوا ہے کیا ہم اس کو یہ کام کرنے دیں گے جو کام وہ اس وقت کررہا ہے، کیا ہماری عدالتیں اور باقی ادارے اپنا کردار ادا نہیں کریں کہ ملک پر آمریت کی گرفت کو ختم کیا جائے اور آئین، قانون اور جمہوریت کو بحال کیا جائے، کیا اس ملک کا مستقبل آمریت سے منسلک ہے یا آئین و قانون کے ساتھ منسلک ہے، کوئی بھی ریاست آمریت کے بل بوتے پر نہیں چل سکتی۔
پی ٹی آئی کے ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم نے ججوں کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی، ہماری لڑائی فوج کے ساتھ نہیں بلکہ ایک فرد واحد کے مقاصد کے ساتھ ہے، اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے ان کے جنون کے ساتھ ہے، جب تک اس آمریت کا خاتمہ نہیں ہوتا اور آئین و قانون کو بحال نہیں کیا جاتا، اس وقت تک پاکستان مشکلات سے دوچار رہے، ہم قانون و انصاف کی بحالی تک یہ لڑائی لڑتے رہیں گے۔