آپریشن کرنے والے ڈاکٹرز کی ناتجربہ کاری خواتین میں فسٹیولا کا مرض پھیلانے کی وجہ بننے لگی ہے، فسٹیولا کے 94 فیصد کیسز بچوں کی پیدائش کے دوران پیچیدگیوں کی وجہ سے ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
پاکستان میں فیسٹولا کے کتنی مریض ہیں، اس بارے میں کوئی حتمی اعداد و شمار دستیاب نہیں، تاہم اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 3500 کیسز آتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق جو مریض ہسپتالوں تک آتے ہیں، ان کی بنیاد پر ہی اعداد و شمار کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
اس مرض کی شکار خواتین کی عمر 18 سال سے لے کر 70 سال تک ہوتی ہے۔
فسٹیولا کے مرض سے متعلق جاننے کے لئے آج ڈیجیٹل نے پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں گائنی ڈپارٹمنٹ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر کام کرنے والی ڈاکٹر سائدہ ابرار سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ زچگی کی پیچیدگیوں کے دوران یا عورتوں کے امراض کے علاج کے سلسلے میں آپریشنز کے دوران غلطی سے یا ناتجربے کاری کی وجہ سے فسٹیولا کا مرض ہو جاتا ہے۔ آج کل سرجیکل پیچیدگیوں والے فسٹیولا کے مریض زیادہ آرہے ہیں۔
ڈاکٹر سائدہ کہتی ہیں کہ ’سی سکیشن جتنا زیادہ بڑھ رہا ہے، اس سے خدشہ ہے کہ صورتحال میں خرابی پیدا ہوگی‘۔
جبکہ ڈاکٹر سائدہ کی جانب سے فسٹیولا کی علامات سے متعلق کہنا تھا کہ 60 فیصد کی علامات کلینیک میں ہی ہو جاتی ہے، جسے کلینیکل ڈائگناسز کہا جاتا ہے۔
جبکہ انہوں نے بتایا کہ فسٹیولا کی کئی اقسام ہیں ، دوسری فسٹیولا کے باعث مسانے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے، جس کے باعث پیشاب کنٹرول نہیں کیا جاتا ہے اور کسی بھی وقت نکل جاتا ہے۔
ڈاکٹر سائدہ ابرار کا مزید کہناتھا کہ بچے کی پیدائش میں شدید مشکل، ناتجربہ کاری اور جعلی ڈاکٹرز کے باعث یہ مشکل پیش آ سکتی ہے، ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ مسانے میں سوراخ ہو جاتا ہے جو کہ پیشاب کو بھی ایک اور راستہ فراہم کرتا ہے۔
فسٹیولا کی دیگر وجوہات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ٹی اے ایچ یعنی جو بچہ دانی نکلتی ہے، اس کے آپریشن سے فسٹیولا کا شکار ہونے والی مریضہ اور کینسر کے مریض جن کو شعاعیں لگتی ہیں یا سرجری کی جاتی ہیں اس سے متاثرہ فسٹیولا کے مریض بھی آرہے ہیں۔