پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ وزارتِ تجارت اس فیصلے کی مزاحمت کی راہ پر گامزن ہے۔ وزارتِ تجارت یہ معاملہ آج (بدھ کو) شوگر ایڈوائزری بورڈ کے سامنے رکھے گی۔
باخبر ذرائع نے روزنامہ بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ جام کمال کی سربراہی میں وزارتِ تجارت، رانا تنویر حسین کی سربراہی میں وزارتِ فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ اور وزارتِ صنعت و پیداوار کو پہلے ہی گندم کی درآمد کے اسکینڈل کے حوالے سے شدید نکتہ چینی کا سامنا ہے۔ گندم کی درآمد سے پنجاب میں گندم کے کاشت کاروں کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
گندم کی درآمد کے حوالے سے فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کی وزارت کے چند اعلیٰ افسران کو برطرفی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ حکومت کو بتایا گیا کہ کسانوں کے 40 ارب روپے واجب الادا ہیں جبکہ واجب الادا رقوم 12 ارب روپے سے زیادہ نہیں۔
ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ پنجاب کی 41 ملز میں سے 22 کو 100 فیصد ادائیگی کی جاچکی ہے۔ باقی ماندہ ملز کی واجب الادا قوم 10 فیصد ہیں۔ ایسے میں 40 ملز کیونکر دیوالیہ ہوسکتی ہیں۔
سندھ اور خیبر پختونخوا کی ملز کے پاس کسانوں کو دینے کے لیے خاطر خواہ فنڈز نہیں۔ تمام متعلقہ وزارتوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ شوگر لابی چونکہ بہت مضبوط ہے اور حکومتی سیٹ اپ میں اس کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ فوائد بٹورنے کی کوشش کرے گی۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ 30 اپریل 2024 تک (نومبر 2024 تک کے لیے) چینی کے ذخائر 44 لاکھ میٹرک ٹن تھے۔ چینی کی ملکی کھپت 5 لاکھ 50 ہزار میٹرک ٹن ماہانہ ہے۔ ماہانہ کھپت سے زیادہ جو کچھ بھی بچ رہتا ہے اُسے بفر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
15 لاکھ میٹرک ٹن کے سرپلس کو برآمد کرکے فوائد بٹورنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ دوسری طرف وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے ہدایت کر رکھی ہے کہ چینی کی قیمت 140 روپے فی کلو سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
اس وقت افغانستان سے چینی کے لیے 600 ڈالر فی میٹرک ٹن یعنی 166 روپے فی کلو کی پیشکش موجود ہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ اگر حکومت نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تو کوئی بھی شوگر مل 140 روپے فی کلو کے نرخ پر چینی نہیں بیچے گی اور یوں چینی ذخیرہ کرلی جائے گی تاکہ آسانی سے برآمد کی جاسکے۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن نے چینی کی برآمد کی اجازت ملنے پر، سابق ادوار میں، چینی کی اندرونِ ملک قیمت برقرار رکھنے کے وعدے کا شاذ و نادر ہی پاس رکھا ہے۔
ذرائع کہتے ہیں کہ اگر فاضل چینی موجود بھی ہے تو اگلے سیزن کے شروع ہونے سے پہلے برآمد کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔