سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی متعدد پوسٹس میں سے ایک تصویر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سرگودھا میں قرآن پاک کی بے حرمتی پر ہجوم کے تشدد کا نشانہ بننے والا مسیحی شخص اپنے بیٹے سمیت مارا گیا ہے تاہم ایک قریبی رشتہ دار نے تصدیق کی ہے کہ ان دعوؤں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے ہفتے کے دو عیسائی خاندانوں کو مشتعل ہجوم سے بچایا، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب سرگودھا کی مجاہد کالونی میں مسیحی خاندان کے گھروں کے قریب جلے ہوئے صفحات ملے۔
اتوار کے روزایک ’ایکس‘ صارف نے ایک تصویر شیئر اور کہا کہ ’’اس بے گناہ مسیحی بھائی اور اس کے والد کو توہین مذہب کے جھوٹے الزامات پر قتل کردیا گیا، ہماری منافقت واضح ہے، اس میں ملوث ہر شخص کو گرفتار کیا جائے“ اس پوسٹ کو 16,000 سے زیادہ ویوز ملے۔
اسی طرح کی ’ایکس‘ پرلمز کے پروفیسر ڈاکٹر تیمور رحمان نے کہا کہ مسیح شخص اور ان کے والد کو توہین رسالت کے جھوٹے الزامات پر قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ وہی طاقت ہے جو ملّا ریاستی طاقت کے بغیر بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر ان کے پاس ریاستی طاقت ہوتی تو وہ اس بات کو یقینی بناتے کہ پاکستان میں کوئی غیر مسلم باقی نہ رہے۔
اس پوسٹ کو 44,000 سے زائد مرتبہ دیکھا گیا اور اسے دی نیوز کے صحافی ارشد یوسفزئی نے بھی دوبارہ شیئر کیا۔
تاہم متاثرہ کے ایک رشتےدار اور بھتیجے نے تصدیق کی کہ اس کے چچا ”صحت مند اور زندہ“ ہیں اور اس کے بعد سے انہیں علاج کے لیے ایک اسپتال منتقل کیا گیا۔
سرگودھا کے ریجنل پولیس آفیسر شارق کمال نے بتایا کہ اس واقعے میں ”کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور کوئی شدید زخمی نہیں ہوا“۔