جرمنی میں صارفین کی مجموعی طلب سے کہیں زیادہ سولر پینل نصب کیے جاچکے ہیں جس کے نتیجے میں گرڈ سے فراہم کی جانے والی بجلی کی طلب گھٹ گئی ہے اور رسد بہت زیادہ ہو جانے سے قیمت منفی ہوگئی ہے۔
’بزنس انسائیڈر‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق جن اوقات میں سولر پینلز سے بجلی کی پیداوار عروج پر ہوتی ہے اُن اوقات میں گرڈ کی بجلی کے نرخ منفی بھی ہو جاتے ہیں۔ بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو نرخ مجموعی طور پر اوسطاً 87 فیصد تک گھٹانے پڑے ہیں۔
جرمنی میں بھرپور روشن دن سولر پینلز سے بجلی پیدا کرنے والے شہریوں کے لیے بھرپور منافع کی نوید ہیں کیونکہ ملک بھر میں سولر پینلز سے بجلی بنانے کا سلسلہ طلب سے کہیں بڑھ چکا ہے۔
ایس ای بی ریسرچ کے ایک نوٹ کے مطابق بجلی بنانے والے اداروں کے لیے یہ صورتِ حال بہت پریشان کن ہے کیونکہ اُن کی پیداواری صلاحیت کے مقابلے میں طلب میں نمایاں کمی واقع ہوچکی ہے۔ بعض علاقوں میں سولر پینلز سے بجلی تیار کرنے کے پیک آورز میں بجلی کی قیمت صفر بھی نیچے چلی گئی ہے۔
جب جرمنی میں سولر پینل لگانے والے خال خال تھے تب بجلی کی اوسط قیمت 70.6 یورو فی میگاواٹ آور تھی جبکہ اب یہ قیمت 9.1 یورو فی میگاواٹ آور ہے۔ سوئیڈش بینک نے ایک نوٹ میں کہا ہے کہ جب ریگیولیشن سے ہٹ کر بنائی جانے والی بجلی کی مقدار طلب کے برابر ہو جائے یا طلب سے بڑھ جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں گرڈ سے بنائی جانے والی بجلی کی قیمت نمایاں حد تک کم ہو جاتی ہے۔
ایس ای بی کے کوموڈٹیز تجزیہ کار جارن شیلڈراپ کا کہنا ہے کہ 2023 کے دوران سولر انرجی کی پیداوار 81.7 جیگاواٹ سے زیادہ تھی جبکہ طلب 52.2 جیگاواٹ تھی۔ گرمیوں میں سولر انرجی کی پیداوار طلب سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ تیز دھوپ کے نتیجے میں سولر انرجی کی بھرپور پیداوار ہو رہی ہوتی ہے۔
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ صارفین کو بجلی کی قیمت گرنے سے کچھ خاص فائدہ نہیں پہنچ رہا کیونکہ دھوپ ڈھلنے پر وہ گرڈ کی بجلی بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔
شیلڈراپ کا کہنا ہے کہ اگر سبسڈیز کے ذریعے حوصلہ افزائی کی جائے اور بجلی خریدنے کے معاہدے نہ کیے جائیں تو گھٹتے ہوئے منافع کے باعث سولر پینلز سے بجلی بنانے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
اب اضافی بجلی سے زیادہ سے زیادہ استفادے پر زور دیا جارہا ہے۔ بیٹریز کا معیار بلند کرکے اور بجلی کے نظام کا بنیادی ڈھانچا اپ گریڈ کرکے سولر انرجی سے زیادہ سے زیادہ استفادہ ممکن ہے۔