کرغزستان کے درالحکومت بشکیک سے پاکستانی طلبہ کی بڑی تعداد واپس ملک پہنچ رہی ہیں، انہوں نے بشکیک میں ایئر پورٹ پر پہنچ کر اپنے ساتھ یا دیگر پاکستانی طلبہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات و حادثات کا تذکرہ بھی کیا جس کے بعد وزیر داخلہ محسن نقوی نے بیان دیا کہ وہاں حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ اس تمام صورتحال کے دوران بعض خبریں ایسے بھی منظر عام پر آئیں جس میں پاکستانی حکام نے واضح کیا کہ ’سوشل میڈیا پر صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا گیا ہے، ریپ اور قتل کی جھوٹی خبروں سے گریز کریں‘۔ لیکن ایسے بیانات تیزی سے رونما ہونے والے واقعات میں نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئے۔
17 مئی کی رات کو چند مقامی افراد نے بشکیک میں پاکستانی اور دیگر غیرملکی طلبہ پر حملہ کیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر فیک نیوز یعنی جھوٹی معلومات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا، اور معاملے کی سنگینی میں اتنا اضافہ ہوگیا کہ دونوں ممالک کے سربراہاں کو مداخلت کرنی پڑی۔
عالمی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں بشکیک میں رونما ہونے والے واقعات سے متعلق ان فیک نیوز یعنی جعلی خبروں کا جائزہ لیا جو اس منظرعامے میں شدت پیدا کرنے کی باعث بنی۔
’شاید یہ میرا آخری میسیج ہو‘
بشکیک کے انٹرنیشنل اسکول آف میڈیسن نے ہوسٹل میں پاکستانی طالبہ نے ہاسٹل میں توڑ پھوڑ اور اپنے کمرے کی طرف بڑھتے شور کی آوازیں سنی تو پاکستان میں اپنی بہن کو سندھ کے شہر عمر کوٹ میں ٹیکسٹ پیغام بھیجا کہ ’شاید یہ میرا آخری میسیج ہو۔‘
ہوسٹل میں مقیم ورشا سمیت کئی پاکستانی طلبہ نے اپنے اہلخانہ کو ’خوفزدہ کردینے والے پیغامات‘ بھیجے۔ ادھر پاکستان میں ان کے اہلخانہ کے پاس معلومات کے حصول کیلیے سوشل میڈیا کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا۔ سوشل میڈیا پر پریشان کن خبروں کا سیلاب تھا جبکہ دوسری جانب مصدقہ اطلاعات کی کمی تھی۔ بشکیک میں بھی اشتعال انگیز مواد پر مبنی فیک نیوز اپنے عروج پر تھی۔
کینیڈا میں بیٹھے بلاگرکی جعلی پوسٹ: ”13 طلبہ ہلاک، خواتین کا ریپ، سفیر نوکری سے فارغ“
بشکیک میں مقیم پاکستانی خاتون فریحہ کے مطابق انہیں سب سے پہلے جو جھوٹی خبر موصول ہوئی وہ کینیڈا میں مقیم بلاگر کا کمنٹ تھا جس پر لکھا گیا تھا کہ ’مجھے اطلاعات مل رہی ہیں کہ اب تک 13 طلبہ ہلاک ہو چکے ہیں، ہمارے سفیر اور سفارتی عملے کو سست روی کا مظاہرہ کرنے پر نوکری سے ہٹا دینا چاہیے۔‘
فریحہ بتاتی ہیں کہ ’اسی بلاگر نے بشیکیک میں خواتین کے ریپ سے متعلق غیر تصدیق شدہ دعوے اب بھی موجود ہیں‘۔ علاوہ ازیں فریحہ نے خون آلود حالت میں زمین پر پڑے دو نوجوانوں کی تصویر بھی دیکھائی جو پاکستان میں متعدد صارفین نے ’ایکس‘ پر شیئر کی تھیں۔
فریحہ کے مطابق ’اسی روز متعدد واٹس ایپ گروپس میں ایسی خبریں پھیلائی گئیں کہ ایک اور حملہ ہونے والا ہے جس کی وجہ معاملے کی سنگینی میں اضافہ ہوگیا‘۔
بشکیک معاملے میں پہلی فیک نیوز: ’پاکستانی طلبا نے مقامی لوگوں کو مارا پیٹا‘
عالمی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں بی بی سی سے منسلک صحافی ایلینورا کلینبکووا کا بیان بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے بتایا کہ بشکیک معاملے میں جو پہلی فیک نیوز پھیلی وہ یہ تھی کہ ’پاکستانی یا بھارتی طلبا نے مقامی لوگوں کو مارا پیٹا جس کے بعد کرغز نوجوانوں نے بدلہ لینے کے لیے طلبہ سے لڑائی جھگڑا کیا‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’بعد میں حقیقت سامنے آئی کہ مقامی لوگوں کے ساتھ جھگڑا کرنے والے مصری تھے‘۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’غیرملکی طلبہ کی ہلاکتوں اور لڑکیوں کا ریپ جیسی خبریں تیزی سے پھیلنے لگیں‘۔
صحافی ایلینورا کلینبکووا نے پاکستانی یوٹیوبرز پر کڑی تنقید کی جو زیادہ سے زیادہ ویوز کیلیے بشکیک معاملے پر جھوٹے دعوے کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’پاکستانی یوٹیوبرز ایسے دعوے کررہے تھے کہ کرغز لوگ پاکستانیوں کو مار رہے ہیں اور ہماری بہنوں اور بیٹیوں کا ریپ کر رہے ہیں۔‘
کرغز کی ہلاکت کی جھوٹی خبر پر مقامی لوگ مشتعل ہوئے، علی توکتاکونوف
بشکیک میں ’میڈیا ہب‘ کے سربراہ علی توکتاکونوف نے بھی امر کی نشاندہی کی کہ سوشل میڈیا جعلی خبروں کے باعث پاکستانی سمیت دیگر غیرملکی طلبہ کو غیرمعمولی نقصان اٹھانا پڑا۔
علی توکتاکونوف ان حالات کے عینی شاہد تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’بشکیک کے سوشل میڈیا پر ایسی فیک نیوز پھیلائی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ لڑائی کے دوران ایک کرغز کو مار دیا گیا‘۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’اس فیک نیوز کے باعث مقامی لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے اور ان کی تعداد سینکڑوں تک جا پہنچ گئی، وہاں جمع ہونے تمام افراد نے فسادات میں حصہ نہیں لیا لیکن نے انہوں حراست میں لیے گئے کرغز شہریوں کی رہائی، مائیگریشن پالیسی کو بہتر بنانے، لڑائی میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور غیر قانونی تارکین وطن کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔‘
اس وقت تحقیقات جاری ہیں، کرغزستان کی وزیر تعلیم
بی بی سی کی رپورٹ میں کرغزستان کی وزیرتعلیم کا بیان بھی شامل ہیں جس میں انہوں نے ’معمولی جھگڑے کے بعد سوشل میڈیا پر غلط معلومات اور بے بنیاد اور نفرت انگیز مواد کے پھیلاؤ سے معاملہ اپنی انتہائی سنگینی تک پہنچ گیا‘۔
انہوں نے نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ’اس وقت تحقیقات جاری ہیں اور صدر کرغز رپبلک نے بیان جاری کیا ہے کہ جو افراد اس کے ذمہ دار ہیں انھیں ان کے کیے کی کڑی سزا دی جائے گی‘