’والدین کی وفات کے بعد میرے چچا زاد بھائیوں نے ہمارے آبائی گھر پر قبضہ کر لیا، ہمارا کوئی بھائی نہیں ہے اور چچا زاد بھائی مجھے اور میری بہنوں کو جائداد میں حصہ نہیں دینا چاہتے تھے‘۔
اپنی جائیداد کے حصول کے لیے صوبائی محتسب خیبرپختونخوا کے دفتر میں 2022 میں کیس دائر کرنے والی پشاور کے علاقے ڈبگری گارڈن کی رہائشی 38 سالہ ریحانہ نے آج ڈیجیٹل کو بتایا کہ ان کے چار مرلے اور دو کروڑ کی مالیت کے ایک آبائی مکان کا کیس چل رہا ہے۔
’میرے چچا زاد بھائی اور ان کے بیٹے کیس کی شنوائی پر حاضر نہیں ہوتے اور جب جرمانہ کیا جائے تو معاف کروا لیتے ہیں، وہ مرد ہیں اور ہم خواتین ہیں اس لئے ان کا مقابلہ مشکل ہو گیا ہے‘۔
“’ہم تین بہنیں ہیں اور ہمارے حصے کی تین کنال کی اراضی تھی جس کا فیصلہ ایک سال بعد آج ہوا ہے‘۔
یہ دوسری کہانی صوبائی محتسب کے دفتر میں کیس دائر کرنے والی ساجدہ کی ہے جنہوں نے نہ صرف خود آبائی جائیداد میں سے اپنا حصہ حاصل کیا بلکہ اپنی بہنوں کو بھی ان کا حق دلوانے میں اُن کی مدد کی۔
صوبائی محتسب خیبرپختونخوا رخشندہ ناز نے آج ڈیجیٹل کو بتایا کہ ایک خاتون نے اپنی 20 ارب کی جائیداد میں حصہ لینے کے لیے تنہا کیس لڑا اور کامیابی حاصل کی۔
رخشندہ ناز کے مطابق اُس جائیداد میں گھر، گاڑیاں، گولڈ، بزنس پرافٹس اور فلور ملز شامل تھیں۔ جائیداد کی تقسیم کے لئے لوکل کمیشن اور ٹیمز بنوائی گئیں اور فیصلہ دینے کے بعد دس دن کے اندر اُن کو حصہ مل گیا۔
خیبرپختونخوا میں معلومات تک رسائی کے قانون (آر ٹی آئی) کے ذریعے صوبائی محتسب برائے خواتین کے وراثت میں حقوق کے تحفظ سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق ہرسال خواتین کے وراثتی حقوق کے حصول کے لئے آنے والی درخواستوں کی تعداد میں اضافی دیکھنے میں آرہا ہے۔
2020-2021 میں صوبائی محتسب خیبرپختونخوا کو موصول ہونے والی رپورٹس کی تعداد 378 تھی جبکہ 2022-2023 میں یہ تعداد بڑھ کر 1,222 ہوگئی، رواں سال صرف 5 ماہ میں یہ تعداد 162 تک پہنچ گئی ہے۔
صوبائی محتسب خیبرپختونخوا کے دفتر میں درج ہونے والی شکایات کی کل تعداد 1762 ہے، جن میں سے 554 کیسز کے فیصلے سنائے گئے، 141 کیسز دوسری عدالتوں میں بھیج دیے گئے ، 25 کیسز آن ہولڈ ہیں جبکہ 1038 کیسز انڈر پراسس ہیں۔
صوبائی محتسب خیبرپختونخوا رخشندہ ناز کہتی ہیں کہ ادارے میں صرف 13 کا اسٹاف کام کر رہا ہے جبکہ ہماری ضرورت 58 افراد کے عملے کی ہے اور ہمارے پاس کوئی مستقل رجسٹرار اور سٹینو ٹائپسٹ بھی نہیں، اساکے علاوہ کئی کیسز میں جائیداد کا ریکارڈ نہیں ہوتا اور کیس التوا کا شکار ہو جاتے ہیں جس کے لیے جائیداد رجسٹریشن بھی ضروری ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی پشاور ہائیکورٹ کی وکیل مہوش محب کاکاخیل سمجھتی ہیں کہ ڈی سی آفس میں کام کا بہت بوجھ ہوتا ہے ، کیونکہ روز کے حساب سے محتسب کی جانب سے 2 سے 3 کیسز کی جائیداد رجسٹریشن رپورٹ طلب کی جاتی ہے اور ڈی سی آفس میں اس کام کے لیے مخصوص عملہ نہ ہونے کی وجہ سے رپورٹ وقت پر نہیں آپاتیں اور کیسز التوا کا شکار ہو جاتے ہیں۔
صوبائی محتسب برائے خواتین کے وراثت میں حقوق کے تحفظ سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق صوبائی محتسب کا دفتر قریب ہونے کے باعث سب سے زیادہ رپورٹس پشاور کی ہیں جو کہ 805 ہیں ، جبکہ مردان سے 202 ، پھر چارسدہ سے 143 ، صوابی سے 89، نوشہرہ سے 82، مانسہرہ سے موصول ہونے والی رپورٹس 58 جبکہ ایبٹ آباد سے 37 ہیں۔
صوبائی محتسب کی پروبونو لیگل ڈیسک ممبر مقدس کے مطابق خواتین میں وراثتی حقوق کے متعلق مہم میں خواتین کی بڑی تعداد حصہ لیتی ہے۔
صوبائی محتسب خیبرپختونخوا رخشندہ ناز کہتی ہیں کہ ہمارے پاس صوبے کے ہر علاقے سے خواتین اپنے وراثتی حقوق کے لئے آ رہی ہیں۔ اگر کمپلیننٹ ناخواندہ ہوں تو وہ ہماری پروبونو لیگل ڈیسک پی ایل ڈی رضاکار وکلاء کی خدمات لیتی ہیں جو کہ ان کو کیس کی درخواست دائر کرنے سے لے کر آخری شنوائی تک مفت سروسز دیتی ہیں جس سے شکایت کنندہ وکلاء کی بھاری فیسوں سے بچ جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہم جواب دہندہ کو نوٹس بھجوانے کے ساتھ ساتھ آفس کے متبادل نمبر سے واٹس ایپ بھی کر دیتے ہیں تاکہ سند رہے۔ بیرون ملک سے رابطہ کرنے والی خواتین کی شنوائی آن لائن کی جاتی ہے۔ اگر خواتین کو کیس دائر کرنے پر ہراساں کیا جائے تو پولیس ڈپارٹمنٹ میں ہمارے فوکل پرسن یا ڈی پی او خود ان کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
صوبائی محتسب خیبرپختونخوا کے مطابق مائیں اپنی بیٹیوں کو خود منع کرتی ہیں کہ بھائیوں سے جائیداد میں حصہ نہیں مانگنا، اسی وجہ سے لڑکیوں کا شناختی کارڈ بھی نہیں بنوایا جاتا کہ کل کو وہ جائیداد میں اپنا حق نہ مانگ لیں۔ اس کے علاوہ جہیز کو بھی وراثتی حق کا متبادل قرار دیا جاتا ہے۔ اور خواتین ناخواندگی کے باعث بھی اپنے وراثتی حقوق سے محروم اور لا علم ہیں۔