سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کیس کی آئندہ سماعت 30 مئی کو سماعت کے لیے مقرر ہوگئیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ 30 مئی کو نیب ترامیم سے متعلق اپیلوں پر سماعت کرے گا۔
بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔
گزشتہ سماعت پر وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے تھے جبکہ بانی پی ٹی آئی عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے تھے۔
نیب ترامیم کیس کی سماعت لائیو نشر کرنے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر
عدالت عظمیٰ نے سابق وزیراعظم عمران خان کو آئندہ سماعت پر بھی ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کرنےکی ہدایت کر رکھی ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت نے آئندہ سماعت کو لائیو دکھانے کے لیے درخواست سپریم کورٹ میں دائر رکھی ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ عوامی مفاد کے مقدمات کی سماعت بینچ ون سے لائیو اسٹریم کی جاتی ہیں لیکن نیب ترامیم کیس کی اپیلوں کی سماعت براہ راست نشر نہیں کی گئی۔
درخواست میں کہا گیا کہ کیس کی سماعت براہ راست نشر نہ ہونا امتیازی سلوک ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال 15 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کئی شقیں کالعدم قرار دے دے دی تھیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال کردیے جب کہ نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔
فیصلے کے مطابق صرف کیسز نہیں، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز بھی بحال کردی گئی تھیں، فیصلے میں نیب عدالتوں سے ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیے گئے کیسز بھی بحال کردیے گئے تھے۔
ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی: سپریم کورٹ سے عمران خان کی تصویر وائرل، تحقیقات کا حکم
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کرپشن کے ختم کیے گئے تمام مقدمات کو احتساب عدالتوں میں ایک ہفتے کے اندر دوبارہ لگایا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کالعدم قرار دی شقوں کے تحت نیب قانون کے تحت کارروائی کرے، آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی، پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
فیصلے میں احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دیے گئے تھے۔
بعد ازاں 17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کو غیر قانونی قرار دینے والی نیب ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 15 ستمبر کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔
نیب ترامیم کیس: سپریم کورٹ کی عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کی اجازت
درخواست میں عدالت سے نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ نیب ترامیم میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی گئی اور قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے۔
اپیل میں فیڈریشن، نیب اور سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمانی اختیار سے متجاوز ہے۔