خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے نیب ترامیم کیس کی سماعت لائیو نشر کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔
درخواست نیب ترامیم کیس میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سید کوثر علی شاہ کی جانب سے دائر کی گئی۔
درخواست میں خیبر پختونخوا حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ عوامی مفاد کے مقدمات کی سماعت بینچ ون سے لائیو اسٹریم کی جاتی ہیں، نیب ترامیم کیس کی اپیلوں کی سماعت لائیو سٹریم نہیں کی گئی، نیب ترامیم کیس کی لائیو سٹریمنگ نہ ہونا امتیازی سلوک ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ نیب ترامیم کیس کی سماعت براہ راست نشر کرنے کا حکم دیا جائے۔
واضح رہے کہ 16 مئی کو قومی احتساب بیورو (نیب) قانون میں ترامیم سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین، سابق وزیر اعظم عمران خان کو بطور درخواست گزار ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی تھی، بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔
مقدمے کی سماعت براہ راست نشر نہیں کی گئی تھی اور اس کی وجہ بھی بیان نہیں کی گئی تھی جبکہ گزشتہ روز سماعت براہ راست نشر کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال 15 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کئی شقیں کالعدم قرار دے دے دی تھیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال کردیے جب کہ نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔
فیصلے کے مطابق صرف کیسز نہیں، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز بھی بحال کردی گئی تھیں، فیصلے میں نیب عدالتوں سے ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیے گئے کیسز بھی بحال کردیے گئے تھے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کرپشن کے ختم کیے گئے تمام مقدمات کو احتساب عدالتوں میں ایک ہفتے کے اندر دوبارہ لگایا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کالعدم قرار دی شقوں کے تحت نیب قانون کے تحت کارروائی کرے، آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی، پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
فیصلے میں احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دیے گئے تھے۔
بعد ازاں 17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کو غیر قانونی قرار دینے والی نیب ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 15 ستمبر کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔
ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی: سپریم کورٹ سے عمران خان کی تصویر وائرل، تحقیقات کا حکم
درخواست میں عدالت سے نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ نیب ترامیم میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی گئی اور قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے۔
اپیل میں فیڈریشن، نیب اور سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمانی اختیار سے متجاوز ہے۔
PTI