کینیڈا کے ایک صوبے نے امیگریشن سے متعلق قواعد میں تبدیلیوں کے باعث سیکڑوں بھارتی طلبہ کو نکل جانے کا حکم دیا ہے۔ اس صورتِ حال سے مودی سرکار اب تک بے خبر ہے۔
انڈیا ٹوڈے نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ کینیڈا میں بھارتی طلبہ 9 مئی سے اپنے حقوق کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے مستقبل کے حوالے سے یہ مارو یا مر جاؤ والا معاملہ ہے۔
مودی سرکار اس پورے معاملے سے اب تک لاعلم سی دکھائی دے رہی ہے۔ جب طلبہ کو ملک بدری کا سامنا ہے انہوں نے کینیڈین صوبے پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ (پی ای آئی) کے ایک ٹاؤن میں 23 مئی کو ایک اجتماع منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ہندوستان ٹائم نے بتایا ہے کہ طلبہ کے کئی گروپوں نے شکایت کی ہے کہ انہوں نے تعلیم مکمل کرلی ہے مگر انہیں ورک پرمٹ نہیں دیے جارہے۔
احتجاج کرنے والے طلبہ کے لیڈر روپیندر پال سنگھ کا کہنا ہے کہ ہم اپنے مطالبات پر متوجہ ہیں۔ ان کا ایک مطالبہ یہ ہے کہ کہ انہیں پراونشیل نومینی پروگرام سسٹم میں شامل کیا جائے کیونکہ نئے قواعد کے نافذ کیے جانے سے پہلے وہ ورک پرمٹ پر کام کر رہے تھے۔
روپیندر پال سنگھ کا مطالبہ یہ ہے کہ جامد پوائنٹس سسٹم کے بجائے برابری کی بنیاد پر تمام طلبہ کو تعلیم اور کام کے مواقع دیے جائیں۔ نئے قوانین کے تحت بیرونی طلبہ سیلز، سروسز، فوڈ اور ٹرک ڈرائیونگ کے شعبے میں کام نہیں کرسکتے۔ ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ جتنا وقت ضائع ہوا ہے اُس کے ازالے کے لیے اور مشکلات دور کرنے کی خاطر ان کے ورک پرمٹ میں توسیع کی جائے۔
پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ نے حال ہی میں کہا تھا کہ وہ ان طلبہ کی تعداد 25 فیصد تک گھٹادے گی جنہیں وہ مستقل رہائش کی پیش کش کرتی ہے۔ بعض شعبوں مثلاً صحتِ عامہ اور تعمیرات کو فوقیت دی جائے گی۔ اسے پراونشل نومینی پروگرام کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت مقامی سطح پر افرادی قوت کو بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ بیرونی طلبہ کو روزگار ملے اور صوبے کی مشینری ڈھنگ سے کام کرتی رہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جایسوال نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ بھارتی طلبہ بڑی تعداد میں کینیڈا گئے ہوئے ہیں۔ اب تک ہمارے سامنے ڈی پورٹیشن کا کیس نہیں آیا۔ اس حوالے سے ہمارے پاس اپ ڈیٹ بھی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اِکا دُکا کیس ہوں۔ ویسے مجموعی طور پر کینیڈا میں بھارتی طلبہ اچھا وقت گزار رہے ہیں۔