پاکستان کا فارما سیکٹر پانچ سال میں اپنی برآمدات کو 3 ارب ڈالر تک لے جاسکتا ہے تاہم اِس کے لیے حکومت کی طرف سے معقول و بروقت معاونت اور موزوں پالیسی کا تعین ناگزیر ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت کہ جب پاکستان قرضوں سے ہٹ کر زرِ مبادلہ حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں ما رہا ہے، متعدد شعبوں میں برآمدات بڑھانے کی گنجائش ہے۔ انہوں نے اس معاملے کو ایسے درخت سے تشبیہ دی ہے جس پر پکے ہوئے پھل لٹک رہے ہیں مگر توڑے نہیں جارہے۔
اپریل میں ختم ہونے والے مالی سال میں بھارت کے فارما سیکٹر کی برآمدات 28 ارب ڈالر کے مساوی تھیں۔ یہ بات فارماسیوٹیکل ایکسپورٹ پروموش کونسل نے بتائی ہے جبکہ مالی سال 2022-23 میں پاکستان کی فارما سیکٹر کی برآمدات صرف 71 کروڑ 30 لاکھ ڈالر رہی تھیں۔
ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ فارما سیکٹر میں برآمدات کو فروغ دینے کے لیے ناگزیر ہے کہ حکومت موزوں پالیسی تیار کرکے نافذ کرے اور اس سلسلے میں فارما سیکٹر کی معاونت بھی کرے۔
روزنامہ بزنس ریکارڈر سے ایک انٹرویو می پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے سابق چیئر پرسن نے کہا کہ ایسی ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی کی ضرورت ہے جو تجارتی معاملات سے اچھی طرح واقف ہو اور ساتھ ہی ساتھ حکومت بھی متعلقہ شعبے کو اپنے تعاون سے نوازے۔
سرکاری عہدیدار نے کہا کہ ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) میں تجارت کی سمجھ بوجھ رکھنے والے نہیں۔ اس کے نتیجے میں فارما سیکٹر کی برآمدات کو بڑھایا نہیں جاسکا ہے۔ اس عہدیدار نے ڈریپ کو مشورہ دیا کہ ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹڈاپ) اور وزارتِ تجارت سے اشتراکِ عمل کرے تاکہ برآمدات میں اضافہ ممکن بنایا جاسکے۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ ڈریپ میں دوا سازی کے ماہرین اور ڈاکٹرز بھی ہیں جو اہم عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ یہ ایک ٹیکنیکل ادارہ ہے۔ یہ سب لوگ تکنیکی سطح پر تو بہت اچھا کام کر رہے ہیں مگر تجارتی معاملات میں کمزور ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ برآمدات میں اضافے کے حوالے سے کچھ خاص نہیں کر پارہے۔
مذکورہ سرکاری عہدیدار نے پاکستان کی تیار کردہ دوائیں بیرونِ ملک متعارف کرانے کے حوالے سے سیالیت بڑھانے پر بھی زور دیا۔ بیرونِ ملک مارکیٹ شیئر حاصل کرنا آسان نہیں کیونکہ اِس کے لیے برانڈز تیار کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے لیے بیرونِ ملک مضبوط ٹیموں کو ٹاسک دینے کی ضرورت ہے۔ ایسی تمام ٹیموں کو معقول مالیاتی وسائل میسر ہونے چاہئیں تاکہ بروقت خرچ کرکے برآمدی ہدف کا حصول یقینی بناسکیں۔
ان تمام چیلنجوں کا ڈھنگ سے سامنا کرنے کے لیے پی پی ایم اے کے سابق چیئر پرسن کی تجویز ہے کہ بیرونِ ملک ادائیگیاں یقینی بنانے کے لیے زرِمبادلہ کا ریٹینشن ریٹ 15 فیصد سے بڑھاکر 35 فیصد کردیا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے بھارت کے فارما ایگزل کی طرز پر مارکیٹ ڈیویلپمنٹ اسسٹنس سسٹم بھی تجویز کیا ہے۔
پی پی ایم اے کے سابق چیئر پرسن نے یہ بھی بتایا کہ فارما سیکٹر کے بنیادی اجزا (خام مال) پر 20 فیصد پروٹیکٹیو ڈیوٹی کے نفاذ سے فارما انڈسٹری کو پروان چڑھانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس ڈیوٹی کا مقصد مقامی ایوریج پرائس انڈیکس (اے پی آئی) پر پروڈکشن بڑھانے کے لیے کام کرنا ہے تاہم اس کے نتیجے میں دوا سازی کی لاگت بڑھ رہی ہے اور پاکستانی دواؤں کے لیے بیرونی منڈیوں میں مسابقت کی گنجائش نہیں رہی۔ مثلاً پاکستان میں پیراسیٹامول کے لیے اے پی آئی چین کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یوں عالمی منڈی میں پاکستان کی تیار کردہ پیراسیٹامول کے لیے مقابلہ ممکن نہیں رہا۔
سرکاری عہدیدار کا کہنا ہے کہ حکومت درآمدی ڈیوٹی بڑھانے کے بجائے فارما سیکٹر کے لیے زرِ اعانت اور ترغیبات کا اعلان کرے۔ حکومت کو لوکل اے پی آئی پروڈکشن کی استعداد بڑھانے کے اقدامات کرے اور اِسی بنیاد پر پالیسی فیصلے کیے جائیں۔
مضبوط سپلائی چَین بھی لازم ہے اور ساتھ ہی ساتھ صنعت کاروں کے لیے خام مال کا حصول بھی آسان بنایا جانا چاہیے۔ بیرون ملک طویل المیعاد منصوبوں کے لیے خام مال کا معقول بہاؤ لازم ہے۔
اعلیٰ سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ بیرونی مارکیٹ میں بالعموم سات سال تک کے معاہدے کیے جاتے ہیں۔ ایسے میں ہمارے دوا ساز اداروں کے لیے مستحکم سپلائی چَین ہونی چاہیے، خام مال وافر مقدار میں دستیاب ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں مقامی اے پی آئیز پر بھروسا کرنا جوا کھیلنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کو اس وقت زرِ مبادلہ کی اشد ضرورت ہے۔ ایسے میں برآمدات بڑھانے سے زیادہ معقول آپشن نہیں۔ پاکستان جیسی بڑی معیشت کے لیے استحکام لازم ہے مگر چند برسوں کے دوران ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں رونما ہونے والی متواتر گراوٹ کے باوجود برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ممکن نہیں بنایا جاسکا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ فارما سیکٹر کے علاوہ بھی کئی شعبے میں جن میں برآمدات کو فروغ دے کر زرِمبادلہ کا حصول یقینی بنایا جاسکتا ہے۔