محققین کے ایک گروپ کو دریائے نیل کی ایک 64 کلومیٹر لمبی شاخ ملی ہے، جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ شاید یہی وہ معمہ ہے جس نے اہرام مصر کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔
یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا ولیمنگٹن کی ایک تحقیق کے مطابق، یہ نہر ہزار سال تک صحرا اور کھیتوں کے نیچے چھپی ہوئی تھی۔
تحقیق میں کہا گیا کہ دریا کی یہ شاخ مصر میں 31 اہراموں کے ساتھ ساتھ بہتی تھی۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دریائے نیل کو پتھر کے بڑے بلاکس کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
اس تازہ ترین دریافت نے ایک طرح سے 4,700 اور 3,700 سال پہلے کے درمیان اہرام کی تعمیر کی وجہ بھی بتائی ہے۔
محققین نے ریڈار سیٹلائٹ کی تصاویر کو دریا کی شاخ کا نقشہ بنانے کے لیے استعمال کیا۔
پراسرار ”خیالی جزیرہ“ جو 7 سال میں صرف ایک بار نظر آتا ہے
یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا ولیمنگٹن کے ارتھ اینڈ اوشین سائنسز کے پروفیسر ایمن گونیم نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ریڈار نے انہیں ’ریت کی سطح پر گھسنے کے نشان، دبے ہوئے دریاؤں اور قدیم ڈھانچے سمیت پوشیدہ خصوصیات کی تصاویر بنانے کی منفرد صلاحیت فراہم کی۔‘
یونیورسٹی کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق ، ٹیم نے یہ بھی پایا کہ ’کئی اہراموں میں کاز ویز تھے جو مجوزہ دریا کے کناروں پر ختم ہوتے ہیں، جس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ دریا کو تعمیراتی سامان کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام کیلئے سمندر سے راستہ نکلنے کا واقعہ درست نہیں، مصری ماہر کا دعویٰ
مطالعہ میں شامل ایمان غونیم کا اس دریافت پر کہنا ہے کہ ’ہم میں سے بہت سے لوگ جو قدیم مصر میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس بات سے واقف ہیں کہ مصریوں نے اہرام اور وادی کے مندروں کی طرح اپنی بہت بڑی یادگاروں کی تعمیر کے لیے آبی گزرگاہ کا استعمال کیا ہوگا، لیکن کسی کو بھی اس مقام یا اس کی شکل، سائز، یا اس میگا واٹر وے کی اصل اہرام کی جگہ سے قربت کے بارے میں یقین نہیں تھا۔ ہماری تحقیق اتنے بڑے پیمانے پر دریائے نیل کی ایک اہم قدیم شاخ کا پہلا نقشہ پیش کرتی ہے اور اسے مصر کے سب سے بڑے اہرام کے میدانوں سے جوڑتی ہے‘۔