بشکیک سے پاکستان پہنچنے والے طلبا نے حقیقت بتادی۔ پاکستانی طلبا نے بتایا کہ بشکیک میں حالات کنٹرول میں نہیں، جھوٹ بولا جارہا ہے، 13 تاریخ کو مصری طلبا نے مقامی لڑکوں سے لڑائی کی، واقعے کی فوٹیج لیک ہوئی تو مقامی لوگوں نے پلاننگ سے حملہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ مقامی لوگوں نے اکٹھے ہو کر حملہ کیا، مقامی لوگوں نے پاکستانی، انڈین اور بنگلہ دیشی شہریوں پر حملہ کیا، اور پولیس بھی مقامی لوگوں کو مدد فراہم کر رہی ہے، ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو پاکستانی طالبعلموں کے ہوسٹلز کا بتایا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ہجوم نے آکر ہاسٹلز پر حملہ کیا، لڑکیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا، بشکیک کے حالات بالکل بھی نارمل نہیں ہیں، مقامی لوگوں کی ٹیکسی میں بیٹھنا بھی محال ہو چکا ہے، ہجوم نے قریبی فیکٹری میں ورکرز کو بھی مارا۔
طالبعلم نے بتایا کہ آج بھی مقامی لوگوں کی جانب سے اکٹھے ہونے کا پلان تھا، بہت سے لوگوں کے پاسپورٹ ویزہ کی تجدید کیلئے گئے ہوئے ہیں، ہم ائیرپورٹ بھی اعتماد کےلوگوں کی گاڑیوں میں پہنچے، جاننے والے مقامی افراد پر بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔
کرغزستان سے طلبا کی وطن واپسی: بچوں کا فیڈبیک اچھا نہیں ہے، محسن نقوی
بھکر سے تعلق رکھنے والے دو سگے بھائی محمد عماد اور محمد اسامہ بشکیک سے گھر پہنچ گئے ہیں۔
محمد عماد کا کہنا ہے کہ بشکیک کے حالات بہت زیادہ خراب ہوچکے ہیں، ایک ہاسٹل میں کچھ پاکستانیوں کی موت بھی واقع ہوئی ہے۔
بشکیک میں موجود 12 ہزار پاکستانی طلبہ کی جان کو خطرہ لاحق، ’پڑوسی جتھوں کو ہماری اطلاع دے رہے ہیں‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی حکومت ہماری کوئی مدد نہیں کر رہی، 90 ہزار والی ٹکٹ ایک لاکھ 25 ہزار روپے میں مل رہی ہے۔
محمد عماد کا کہنا تھا کہ بہت سے پاکستانی طلبا زخمی ہیں، پاکستانی طالبات کی عزتیں وہاں غیرمحفوظ ہوچکی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے لیے گورنمنٹ نے کوئی چارٹرڈ فلائٹ نہیں چلائی، ہم اپنی مدد اپ کے تحت وہاں سے نکل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صرف اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے پاکستان واپس پہنچے ہیں، زندہ رہے تو ڈگریاں لے لیں گے۔