رقص کو ہمارے معاشرے میں آج بھی برا سمجھا جاتا ہے خاص کر لڑکیوں کو اس بات کا حوالہ دیتے ہوئے روکا جاتا ہے کہ یہ ہماری روایت اور مذہبی اقدار کے خلاف ہے ۔
زمانے نے جتنی بھی ترقی کرلی لیکن خواتین کو رسم و رواج کے بندھن میں قید کر کے آج بھی مکمل آزادی سے محروم کیا جاتا ہے ایسی ہی سماجی رویوں کی عکاسی کرتا کھیل دستک ناپا میں پیش کیا گیا، جس میں تھیٹر فنکاروں نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔
رسم و رواج فکر،سوچ اورخواہشوں پر لگی پابندیوں کی عکاسی کرتے تھیٹرپلے دستک میں ماضی اور حال کی یادوں کو تازہ کیا گیا ۔
ڈرامے کی کہانی ایک ایسی لڑکی کی گرد گھومتی ہے جو رقص کی شیدائی ہے لیکن سماجی رویوں کے خوف سے رقص کی اجازت نہیں ملتی۔
کھیل کے ہدایتکار شاہنواز بھٹی کہتے ہیں سندھ کے دیہی علاقوں میں آج بھی ایسی روایت موجود ہے۔
معروف اداکار صلاح دین تنیو نے کہا کہ جو کہانی پیش کی گئی وہ حقیقت سے بہت قریب ہے اس طرح کے موضوع پر بات نہیں کی جاتی تھی اس لیے خوش آئند ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو اداکاری اور گلوکاری کو بھی معیوب سمجھی جاتا تھا لیکن اب یہ پروفیشن مقبول ہوگیا ہے ،معاشرے میں دوہرا معیار ہے اگر گھر میں شادیوں ناچ گانا ہوتا ہے تو پھر اسٹیج پر بھی ڈانس کرنے کی اجازت ہونی چاہیے ۔
تھیٹر کے فنکاروں کے کرداروں میں حقیقت کے رنگ بھر کر خوب دادا سمیٹی جبکہ کھیل میں فنکاروں نے جاندارپرفارمنس دی توشائقین ڈرامہ کی جانب سےخوب سراہا گیا ۔