بشکیک میں پاکستانی سفارتخانے نے بقول کرغزستانی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ پرتشدد واقعات میں کسی پاکستانی طالب علم کی ہلاکت نہیں ہوئی ہے لیکن بشکیک میں ہنگامہ آرائی اور بلوے سے وہاں موجود 12 ہزار پاکستانی طلبہ کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
دوسری جانب پوری صورتحال کے تناظر میں کرغزستانی حکومت کے اقدامات سے متعلق سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اگرچہ کرغزستان کی کابینہ نے ’سوشل نیٹ ورکس پر غلط معلومات‘ کو پرتشدد واقعات میں اضافے کی وجہ قرار دیا ہے اور ساتھ ہینسلی بنیادوں پر تشدد اور بدامنی کو ہوا دینے کی کوششوں کی مذمت کی ہے اور ساتھ ہی عالمی میڈیا پر غیرملکی طلبہ کے مبینہ قتل اور تشدد کے بارے میں نشر کی جانے والی خبروں کو تردید کی ہے۔
ادھر کرغزستان کے سرکاری میڈیا ’کابار‘ نے کرغزستانی حکومت کے حوالے سے کہا ہے کہ معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے جرائم کی مکمل چھان بین کررہے ہیں اور تمام ملزمان کو انصاف کے کٹہرے می لائیں گے۔
کرغزستان کے ’سرکاری میڈیا‘ کے مطابق بشکیک کی بودینوگو اسٹریٹ میں ہونے والی لڑائی کے بعد پولیس نے 4 غیرملکیوں کو حراست میں لے کر ان کے خلاف ہنگامہ آرائی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
اگرچہ ان اقدامات سے متعلق آگاہی کے لیے بشکیک میں پاکستانی سفیر حسن زیغم اور کرغزستان کے نائب وزیرخارجہ الماز امنغازیف کے مابین ایک ملاقات بھی ہوئی ہے۔ اس ملاقات میں الماز امنغازیف نے واقعات سے متعلق پاکستانی میڈیا پر نشر ہونے والے والی خبروں کا تذکرہ کیا اور اپیل کی کہ وہ ان بے بنیاد اور من گھڑت خبروں کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
دوران ملاقات حسن ضیغم نےخدشات سےکرغزنائب وزیرخارجہ کو آگاہ کیا اور انہوں نے کرغزحکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستانی شہریوں کےتحفظ کوترجیح دے۔
کرغزنائب وزیر خارجہ نے بتایا کہ کرکرغزحکام نےصورتحال پرقابو پالیا ہے پولیس ہاسٹلزکوسیکیورٹی فراہم کررہی ہے جبکہ اس معاملے کی براہ راست نگرانی کرغیز صدر کر رہے ہیں۔
نائب وزیر خارجہ الماز نے سفیر کو یقین دلایا کہ کرغزستان کی حکومت کل کے حملے کے مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی،کچھ پاکستانیوں سمیت 14 غیر ملکی شہریوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کر دی گئی ہے۔