روس اور چین نے اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو مزید توسیع دے دی ہے۔ دونوں ممالک نے علاقائی اور عالمی سطح پر اپنے اپنے کردار کو وسعت دینے پر بھی اتفاق کرلیا ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے چین کے دورے میں چند نئے معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ روس چاہتا ہے کہ چین سے اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو اس حد تک بڑھایا جائے کہ امریکا اور یورپ خائف ہوں۔ تجارتی جنگ میں دونوں خطوں نے چین کے اگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔
امریکا چاہتا ہے کہ چینی مصنوعات پر زیادہ سے زیادہ درآمدی ڈیوٹی لگائی جائے تاکہ امریکی صنعتیں تباہی سے محفوظ رہیں۔ یورپ میں چین کی سستی برقی گاڑیوں نے ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے آٹو میکرز پریشان ہیں کہ چین کی خاصی سستی برقی گاڑیون کا سامنا کریں۔
چین نے برقی گاڑیوں کی بیٹریوں کا مسئلہ بھی بہت حد تک حل کرلیا ہے۔ امریکا نے لاگت میں کمی کی تمام کوششوں کے ناکام ہونے پر اب چین کی برقی گاڑیوں پر 100 فیصد درآمدی ڈیوٹی لگادی ہے۔
امریکا نے کہا ہے کہ روس اور چین مزید قربت پیدا کرنا چاہتے ہیں کریں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ امریکا کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ چین اور روس کے صدور کو وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ کیوں گلے ملے۔
روسی صدر پوٹن کا چین کا دورہ امریکا اور یورپ دونوں ہی کے لیے پریشان کن ہے کیونکہ دونوں بڑی طاقتوں نے وسیع تر پارٹنرشپ قائم کرنے سے اتفاق کرلیا ہے۔ روس معاشی کردار میں توسیع چاہتا ہے جبکہ چین اُسے عسکری معاملات میں شریک کرکے اپنے اثر و رسوخ کا دائرہ وسیع تر کرنا چاہتا ہے۔ معاہدوں پر دستخط کے بعد روس اور چین کے صدور گلے بھی ملے جو ایک غیر معمولی اشارا ہے۔
مسلسل چھٹی بار صدر منتخب ہونے کے بعد پہلے غیر ملکی دورے کے لیے چین کا انتخاب کرکے صدر پوٹن نے امریکا اور یورپ دونوں ہی کو پیغام دیا ہے کہ اُن کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ یوکرین جنگ میں امریکا کا بڑھتا ہوا کردار روس کو مزید ناراض کرنے کا باعث بنا ہے اور اُس نے خود کو چین سے مزید قریب کرنے کا فیصلہ کرکے پیغام دیا ہے کہ اب نئے عالمی نظام کی ضرورت ہے جس میں روس اور چین کا کردار بھی غیر معمولی حد تک نمایاں ہو۔