سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی، دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اگر آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمان کو بند کر دیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بھی 5 رکنی لارجر بینچ میں شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر سابق وزیر اعظم عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیا، بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے نیلے رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھی جبکہ نیب ترامیم کیس کی سماعت براہ راست نہیں دکھائی گئی۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا جبکہ وکیل خواجہ حارث بھی روسٹرم پر آگئے۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اصل کیس میں وکیل تھے، آپ کے نہ آنے پر مایوسی تھی، ہم آپ کے مؤقف کو بھی سننا چاہیں گے، بطور وکیل آپ نے فیس کا بل جمع کرایا؟َ، جس پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ مجھے فیس نہیں چاہیئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ تمام وکلاء سے سینئر ہیں۔
بعدازاں وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیرالتواء ہے۔
اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مخدوم علی خان آپ اونچی آواز میں دلائل دیں تاکہ ویڈیو لنک پر موجود بانی پی ٹی آئی عمران خان بھی آپ کو سن سکیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ میں زیر التواء درخواست سماعت کے لیے منظور ہوئی؟ جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ جی اسے قابل سماعت قرار دے دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کے خلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوالیں۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا آپ اس کیس میں وکالت کریں گے؟ وکیل نے بتایا کہ جی میں عدالت کی معاونت کروں گا۔
بعد ازاں عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترمیم کیس پر ہوئی سماعت کا حکم نامہ طلب کر لیا۔
حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ جولائی 2022 کو نیب ترامیم کے خلاف پہلی سماعت ہوئی، جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کل کتنی سماعتیں ہوئیں ہیں؟ وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ کل 53 سماعتیں ہوئیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے دریافت کیا کہ اتنا طویل عرصے تک کیس کیوں چلا؟ کیا آپ نے کیس کو طول دیا؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا جی زیادہ وقت دلائل میں درخواست گزار نے لیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 1999 میں نیب قانون بنانے میں کتنا وقت لگا تھا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مارشل لا کے فوری بعد ایک ماہ کے اندر نیب قانون بن گیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف درخواست کب دائر ہوئی؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست 4 جولائی 2022 کو دائر ہوئی، سپریم کورٹ والی درخواست کو نمبر 6 جولائی 2022 کو لگا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ مرکزی کیس پر اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا تھا؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ 2022 کا پورا سال درخواست گزار کے وکیل نے دلائل میں لیے، جسٹس جمال خان مندو خیل کا کہنا تھا کہ نیب کا پورا آرڈیننس بنانے میں کتنا عرصہ لگا تھا؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مشرف نے 12 اکتوبر کو اقتدار سنبھالا اور دسمبر میں آرڈیننس آچکا تھا، مشرف نے 2 ماہ سے کم عرصے میں پورا آرڈیننس بنا دیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چند ترمیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا؟ مخدوم علی خان آپ کیس میں موجود تھے اتنا عرصہ کیوں لگا دیا؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ کیس قابل سماعت ہونے کی بحث میں ہی کافی وقت لگا۔
چیف جسٹس نے مزید دریافت کیا کہ ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہوتے ہوئے یہ کیس سپریم کورٹ میں کیسےقابل سماعت ہوا؟ کیا مرکزی کیس کے فیصلے میں عدالت نے اس سوال کا جواب دیا تھا؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ جی ہاں عدالت نے فیصلے میں اس معاملے کا ذکر کیا تھا۔
بعد ازاں مخدوم علی خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پیراگراف عدالت میں پڑھ دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ یہ تو بڑا تعجب ہے کہ نیب ترامیم کیس 53 سماعتوں تک چلایا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2023 میں الیکشن کیس ایسی ہی وجوہات پر ہم دو ججز نے ناقابل سماعت کر دیا تھا، ہم نے کہا تھا جو کیس ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، اگر تب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عمل ہوتا تو الیکشن بروقت ہو جاتے، لاہور ہائیکورٹ نے جو الیکشن کا فیصلہ دیا تھا اس کیخلاف انٹرا کورٹ حکم جاری نہیں ہوا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کہ الیکشن کے معاملے پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس کا آرڈر آف کورٹ کہا ہے؟ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ وہ آرڈر اسی نکتے پر اختلاف کی وجہ سے جاری نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ مسکراتے ہوئے مکالمہ کیا کہ آپ جب میرے ساتھ بنچ میں بیٹھے ہم نے تو 12 دن میں الیکشن کروا دیئے، آپ جس بنچ کی بات کر رہے ہیں اس میں خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میں نہیں تھا۔
دوران سماعت سابق وزیراعظم عمران خان نے ساتھ موجود پولیس اہلکاروں کو پاس بلا لیا اور اپنے چہرے پر تیز روشنی پڑنے کی شکایت کی جبکہ شکایت کرنے پر اہلکاروں نے لائٹ کو ایڈجسٹ کر دیا اور بڑی اسکرین سے بانی پی ٹی آئی کی تصویر ہٹا دی گئی۔
دوسری جانب عمران خان کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے پر سپریم کورٹ انتظامیہ نے تحقیقات شروع کردیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق پولیس انتظامیہ اسٹاف کو سی سی ٹی وی کیمرے دیکھ کر تصویر وائرل کرنے والے کی نشاندہی کرنے کی ہدایت دے دی گئی، پولیس تصویر کو وائرل کرنے والے کے خلاف ایکشن لے گی، تصویر کورٹ روم رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لی گئی، عدالت میں عمران خان کی ویڈیو چھوٹی کردی گئی۔
ادھر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کیا چیف جسٹس کسی بھی جج کو بینچ سے الگ کرسکتا ہے؟۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 7 رکنی بنچ نے کہا 90 دونوں میں الیکشن ہوں مگر نہیں ہوئے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ میری سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے صرف 12 دونوں میں الیکشن کرانے کا فیصلہ دیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا ہم نے آرڈر آف دی کورٹ دیا، اکیسویں ترمیم کا بھی آرڈر آف دی کورٹ تھا۔
اسی دوران ایک وکیل نے روسٹرم پر آکر بتایا کہ یہ کارروائی براہ راست نشر نہیں کی جارہی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ بیٹھ جائیں اس وقت دلائل چل رہے ہیں، وکیل نے کہا کہ ہم صرف آپ کے نوٹس میں لانا چاہتے تھے۔
بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل کو واپس بیٹھا دیا۔
پھر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا، پریکٹس اینڈ پروسیجر معطل کرنا درست تھا یا غلط مگر بہر حال اس عدالت کے حکم سے معطل تھا، ایکٹ معطل ہونے کے سبب کمیٹی کا وجود نہیں تھا۔
وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان نے بتایا کہ بینچ کے ایک رکن منصور علی شاہ نے رائے دی کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کو طے کیے بغیر نیب کیس پر کارروائی آگے نہ بڑھائی جائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ قانون درست نہیں ہے تو اسے کالعدم قرار دے دیں، اگر قوانین کو اس طرح سے معطل کیا جاتا رہا تو ملک کیسے ترقی کرے گا، آپ کو قانون پسند نہیں تو پورا کیس سن کر کالعدم کردیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کسی بل کو معطل کرنا پارلیمنٹ کی کارروائی کو معطل کرنا نہیں؟ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایسے پھر پارلیمنٹ کو ہی کیوں نہ معطل کردیں؟ ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے ایک ہی بات ہے، ہم کب تک خود کو پاگل بناتے رہیں گے؟
جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید بتایا کہ اگر مجھے کوئی قانون پسند نہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے؟ کیا ہم کبھی بطور ملک آگے بڑھ سکیں گے ؟ ایک قانون کو معطل کر کے پھر روزانہ کیس کو سن کر فیصلہ تو کرتے، کیا قانون معطل کر کے بینچ اس کے خلاف بنا کر دیگر مقدمات سنتے رہنا کیا یہ استحصال نہیں؟
اس موقع پر مخدوم علی خان نے کہا کہ آپ نے بطور سینئر ترین جج یہ نقطہ اٹھایا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اسے چھوڑیں کیا آپ کا اپنا کوئی نقطہ نظر نہیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اپیل متاثرہ فریق دائر کر سکتا ہے اور وہ کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے، حکومت اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہے؟ پریکٹس ایند پروسیجر کے تحت اپیل صرف متاثرہ شخص لائے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صرف متاثرہ شخص نہیں قانون کہتا ہے متاثرہ فریق بھی لاسکتا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دو تشریحات ہو سکتی ہیں کہ اپیل کا حق صرف متاثرہ فریق تک محدود کیا گیا، متاثرہ فریق میں پھر بل پاس کرنے والے حکومتی بینچ کے ممبران بھی آسکتے ہیں، اگر اس طرح ہوا تو ہمارے سامنے 150 درخواست گزار کھڑے ہوں گے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قانون سازوں نے ہی متاثرہ فریق کے الفاظ لکھے ہیں۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر کوئی مقدمہ عدالت آئے تو اسے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے، قانون کو معطل کرنا بھی نظام کے ساتھ ساز باز کرنا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم میرٹ پر چلتے تو بہتر ہوتا، چیف جسٹس نے بتایا کہ قانون کو معطل کرنے کے بجائے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق دو کے تحت اپیل متاثرہ شخص کرسکتا ہے، حکومت متاثرہ فرد کیسے ہوتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کسٹم ایکٹ کالعدم قرار دے تو کیا حکومت اپیل نہیں کرسکتی؟ حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ بالکل حکومت اپیل کرسکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پھر آگے بڑھیں جبکہ دوران سماعت بانی پی ٹی آئی ساتھ بیٹھے شخص سے باتیں کرتے رہے۔
بعد ازاں مخدوم علی خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ نیب قوانین 2022 کے فالو آپ پہ 2023 کی ترامیم بھی آئیں تھیں، عدالت نے فیصلے میں 2022 کی ترامیم ہی کالعدم قرار دی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ تو آپ ٹیکنیکل اعتراض اٹھا رہے ہیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ یہ ٹیکنیکل اعتراض بھی موجود ہے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم ان سوالات پر عمران خان سے جواب لیں گے، بانی پی ٹی آئی یہ نکات نوٹ کر لیں۔
چیف جسٹس ریمارکس کے ساتھ زیر لب مسکرا گئے، عمران خان چیف جسٹس کی زیر لب مسکراہٹ دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرا دیے۔
وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان نے اہنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عمران خان وزیر اعظم تھے قانون بدل سکتے تھے مگر آرڈیننس لائے، نیب ترامیم کا معاملہ پارلیمانی تنازعہ تھا جسے سپریم کورٹ لایا گیا، یہ ملی بھگت سے معاملہ سپریم کورٹ لایا گیا۔
اسی موقع پر عدالت نے وکیل مخدوم علی خان کو ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا کسی بل پر کوئی پارٹی رکن اپنی پارٹی فیصلے کے خلاف ووٹ دے سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آرڈینس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں، آرڈینس کے ذریعے آپ ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھونپ دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں؟ کیا آرڈینس کے ساتھ صدر مملکت کو تفصیلی وجوہات نہیں لکھنی چاہیے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمان کو مضبوط بنانا سیاستدانوں کا ہی کام ہے۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے عمران خان کو آئندہ سماعت پر بھی ویڈیو لنک پر پیش کرنے کی ہدایت جاری کردی۔
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے خلاف سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ وڈیولنک پیش ہونے کی اجازت دی تھی۔
راولپنڈی میں اڈیالہ جیل حکام نے عمران خان کی سپریم کورٹ میں ویڈیو لنک پیشی کے انتظامات مکمل کیے تھے۔
جیل انتظامیہ نے بانی پی ٹی آئی کو ویڈیو لنک پیشی سے آگاہ کیا تھا جبکہ متوقع ویڈیو لنک پیشی سے قبل مواصلاتی ٹیسٹ بھی کیا گیا۔
عمران خان کی سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کا ممکنہ وقت دن 11:30 بجے مقرر کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کو بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر کالعدم قرار دیا تھا، تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت نے انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی تھیں۔
منگل کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کو نیب ترامیم کیس میں ویڈیو لنک کے ذریعے جیل سے پیش ہونے کی اجازت دیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور جیل اتھارٹیز کو ویڈیو لنک کے انتظامات کرنے کی بھی ہدایت جاری کی تھیں۔
دوران سماعت جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت آنے سے کسی کا راستہ نہیں روک سکتے، سپریم کورٹ نے کئی کیسز میں اصول طے کیا فیڈریشن متاثرہ فریق نہیں ہوسکتی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں ضمانت منظور کی تھی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامرفاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے عمران خان کی ضمانت کی درخواست پر منگل کو محفوظ کیا گیا فیصلہ بدھ کو سنایا تھا۔
عدالت نے مختصر زبانی فیصلہ کھلی عدالت میں سنایا جبکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت 10 لاکھ کے مچلکوں کے عوض منظور کی اور بانی چیئرمین پی ٹی آئی کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس کے علاوہ گزشتہ روز ہی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے آزادی مارچ کے دوران تھانہ کھنہ میں درج مقدمہ میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کو بری کر دیا تھا۔
پی ٹی آئی رہنماؤں نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں پر پابندی ایک مبینہ منصوبے کے تحت لگائی گئی ہے جس کے تحت عمران خان کو آج دوبارہ شروع ہونے والے نیب ترمیمی کیس میں ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہونے سے روکا جائے گا۔
پی ٹی آئی کے وکلا کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے کہا کہ وہ عمران خان کی صحت کے حوالے سے انتہائی فکر مند ہیں کیونکہ عدالتی احکامات کے باوجود انہیں 15 سے 20 دن تک میڈیکل ٹیسٹ کرانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ دو روز کے دوران عمران خان کے سیکیورٹی گارڈز کو آدھی رات کو اچانک تبدیل کردیا گیا اور القادر ٹرسٹ، سائفر اور توشہ خانہ کیسز کی سماعت مختلف بہانوں سے ملتوی کردی گئی جب کہ عدت کیس میں حکومتی وکیل اچانک ملک سے باہر چلے گئے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال 15 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کئی شقیں کالعدم قرار دے دے دی تھیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال کردیے جب کہ نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔
فیصلے کے مطابق صرف کیسز نہیں، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز بھی بحال کردی گئی تھیں، فیصلے میں نیب عدالتوں سے ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیے گئے کیسز بھی بحال کردیے گئے تھے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کرپشن کے ختم کیے گئے تمام مقدمات کو احتساب عدالتوں میں ایک ہفتے کے اندر دوبارہ لگایا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کالعدم قرار دی شقوں کے تحت نیب قانون کے تحت کارروائی کرے، آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی، پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
فیصلے میں احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دیے گئے تھے۔
بعد ازاں 17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کو غیر قانونی قرار دینے والی نیب ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 15 ستمبر کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔
درخواست میں عدالت سے نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ نیب ترامیم میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی گئی اور قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے۔
اپیل میں فیڈریشن، نیب اور سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمانی اختیار سے متجاوز ہے۔