پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اپوزیشن جانتی ہے کس کے پاؤں پکڑنے ہیں اس لیے سیاستدانوں سے بات نہیں کرتی، پہلے کہتے تھے جمہوریت میں مداخلت نہ کرو، اب پاؤں پکڑ کر مداخلت چاہتے ہیں، جب تک منافقت جاری رہے گی ان کا رونا دھونا چلتا رہے گا۔ْقومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر سید غلام مصطفیٰ شاہ کی زیر صدارت ہوا جبکہ ایوان میں صدر مملکت کی جانب سے مشترکہ اجلاس میں خطاب پر شکریہ کی تحریک پر بحث جاری رہی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ صدر مملکت کے خطاب کے دوران اپوزیشن نے سیٹیاں بجائیں اور نامناسب رویہ رکھا، صدر آصف زرداری نے مل کر چلنے کی بات کی، ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے مل کر چلنا ہوگا، بات چیت کے بغیر ملکی مسائل کا حل ممکن نہیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اپوزیشن ذاتی مسائل کے بجائے عوامی مسائل پربات کریں، بجٹ میں بھی اپوزیشن کا کردار ہونا چاہیئے، شاید اپوزیشن اپنی آئینی ذمہ داری بھول چکی ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ اپوزیشن کو آئینی کردار یاد کروائیں۔
بلاول بھٹو زرداری کے خطاب کے دوران اپوزیشن کا شور شرابا کردیا۔
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ اپوزیشن صرف ذاتی رونا دھونا کررہی ہے، صدر زرداری نے صحت اور تعلیم کے شعبوں پر بات کی، ہم نے دل کےعلاج کے مفت اور معیاری اسپتال کھولے، سندھ کے شہری علاج کے لیے صوبے سے باہر نہیں جاتے، سندھ کے اسپتالوں میں چاروں صوبوں کے لوگ آتے ہیں۔
مسائل کے حل کیلئے سیاستدانوں کو ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا پڑے گا، بلاول بھٹو
ان کا مزید کہنا تھا کہ سب کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں اور اسپتالوں کا دورہ کریں، پشاور میں بھی حکومتی سطح پر مفت علاج ہونا چاہیئے، ہم نے سندھ میں گھوسٹ اساتذہ کے مسئلے کو حل کیا، سندھ میں اساتذہ کو وقفے وقفے سے تربیت فراہم کررہے ہیں، اپوزیشن فلسطین اور کشمیر پر بھی اپنا رونا روتی ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کریں، اپوزیشن لیڈر اپنی تقریر میں رونا روتے رہے، آج ہمارے کسان اپنے مسائل کے حل کے لیے پریشان ہیں، زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، ہمارے کسانوں کا معاشی قتل جاری ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ہم ملکی معیشت کی ترقی چاہتے ہیں تو آج ایکشن لینا ہوگا، حکومت کمیٹی کمیٹی کھیلنا بند کرے، کسانوں کے معاشی قتل کا احتساب ہونا چاہیئے، اس مسئلے پر تمام جماعتوں کو ایک ساتھ ہونا چاہیئے، کسانوں کو نقصان غلط فیصلوں کی وجہ سے ہورہا ہے، موجودہ بحران میں کسانوں کا کوئی قصور نہیں۔
انہوں نے گندم بحران پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گندم موجود ہونے کے باوجود باہر سے گندم منگوائی گئی، حکومت کو مسئلے پر فوری ایکشن لینا چاہیئے، گندم کی برآمدات سے پابندی فوری ہٹائی جائے، حکومت کو کسانوں کی ہر ممکن مدد کرنا چاہیئے، شہبازشریف کو ڈھونڈنا چاہیئے کہ گندم اسکینڈل میں کون ملوث ہے؟ شہبازشریف ذمہ داران کے خلاف فوری ایکشن لیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ ایسا نہ ہوکہ کسان آئندہ سال کم گندم کاشت کریں، کسانوں کو مراعات دی جانی چاہئیں۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ پہلے پی ٹی آئی نے پنجاب میں عثمان بزدار جیسا تحفہ دیا اور اب خیبرپختونخوا کا وزیر اعلی بہت بڑا ڈرامہ ہے، اس کو وزیر اعلی پی ٹی آئی نے نہیں کسی اور نے بنایا۔
بلاول بھٹو کے اظہار خیال کے دوران اپوزیشن نے پھر شور شرابا کیا جس پر بلاول بھٹو نے کہا کہ اپوزیشن کے غیر سنجیدہ رویے پر افسوس ہے، اپوزیشن جمہوریت میں دلچسپی نہیں رکھتی، اپوزیشن صرف ذاتی معاملات سےدلچسپی رکھتی ہے، اپوزیشن صرف ذاتی مسائل کاحل چاہتی ہے، بات آئین اور قانون کی کرتے ہیں مگر بات اسٹیبلشمنٹ سے کرنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کا قصور کیا ہے جو ایسا وزیراعلی لگوایا، یہ صوبے کے مسائل کا حل نہیں نکالنا چاہتے، جمہوری بنتے ہیں اور سیاستدانوں سے بات نہیں کرنی، ان کی سیاست یہ ہے کہ دکھانا کچھ اور کرنا کچھ ہے، یہ دکھاتے کچھ اور کرتے کچھ اور ہیں، ان کی غیرسنجیدگی اب بھی جاری ہے، ان کو عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔
قومی اسمبلی اجلاس میں جھگڑا، پیپلز پارٹی کی خاتون رکن نے پی ٹی آئی رکن کو ہیڈفونز دے مارے
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ پرامن احتجاج کرنا ان کا حق ہے، دہشت گردی کرنے کا حق کسی کو نہیں، جمہوری اقدار پر سیاست کرنا سب کا حق ہے، سیاست میں اداروں پر حملے کرنے کا حق نہیں، 9 مئی کی معافی نہ مانگی تو ان کا رونا دھونا جاری رہے گا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے ایوان میں ”گو زرداری گو“ کے نعرے لگائے اور اسپیکر ڈائز کا گھیراؤ کرلیا۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے 9 مئی کی دہشت گردی کو بی بی کی شہادت سے کیسے ملایا، کہاں بی بی کی شہادت اور کہاں 9 مئی کی دہشت گردی، گرفتاری پر اتنا گھبرا گئے کہ کارکنان کو حملے کا کہہ دیا، ذوالفقار بھٹو کی شہادت پر کارکن نے خود کو جلایا تھا، بی بی کی شہادت پر پورے ملک میں احتجاج کیا گیا، بی بی کی شہادت پر جلاؤ گھیراؤ بھی کیا گیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ کسی شہید کی یاد گار پر حملہ نہیں کیا گیا تھا، ہم نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، انہوں نے بغاوت کی، جیل میں ان کا لیڈر باہر آنے کے لیے رو رہا ہے، یہ ان کی تحریک آزادی نہیں، لیڈر کا رونا دھونا بند کرنا ہے، پیپلزپارٹی نفرت اور تقسیم کی سیاست کو شکست دے گی۔
ایم کیو ایم کے رہنما مصطفی کمال کا کہنا تھا کراچی پاکستان کے ریونیو کا انجن ہے صرف یہاں سے 68 فیصد ریونیو اکٹھا ہوتا ہے ہمارے لیے باعث فخر ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کراچی چلتا ہے تو پاکستان چلتا ہے لیکن کراچی والوں کو پانی بھی خرید کر پینا پڑتا ہے، کراچی کو کوٹے کے مطابق نہ ہونے کے برابر پانی ملتا ہے ان باتوں سے احساس محرومی میں اضافہ ہوتا ہے۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان کا نقطہ اعتراض پر کہنا تھا کل وزیر قانون نے پالیسی بیان دیا کہ بجلی چوری کیوجہ لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے سچی بات یہ ہے جب تک حکومت بجلی بنانے کے لئے پیسہ نہیں ریلیز کرے گی تو معاملہ آگے کیسے بڑھے گا۔ میری گزارش ہے ایوان میں متعلقہ وزیر جھوٹ بولنے کی بجائے سچی بات بتائیں۔
سنی اتحاد کونسل کے زین قریشی نے بانی پی ٹی آئی عمران خان، شاہ محمود قریشی اور دیگر قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
ریاض فتیانہ کا کہنا تھا سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام لازم ہے، اسپیکر اپنے آفس کا استعمال کریں تو ہم بامعنی مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
بعدازاں اسپیکر سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی کا اجلاس جمعرات تک ملتوی کردیا۔