Aaj Logo

شائع 13 مئ 2024 05:22pm

سپریم کورٹ کا صحافی پر حملہ کرنے والوں کے خاکے اخبارات میں شائع کرانے کا حکم

سپریم کورٹ آف پاکستان نے صحافیوں پر حملے کی تفتیش ایک ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے اسلام آباد پولیس کو 30 دن کی مہلت دے دی جبکہ عدالت نے اسد طور حملے کے ملزمان کے خاکے اخبارات میں شائع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے انعامی رقم مقرر کر کے اشتہار دیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں، ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکتے جاؤ۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت چکوال سے تعلق رکھنے والے راجا شیر بلال، ابرار احمد اور ایم آصف ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے، چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار کمرہ عدالت میں درخواست دائر کرنے سے ہی مکر گئے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں کوڈ آف کنڈکٹ تشکیل دینے کی درخواست 2022 میں دائر کی گئی تھی۔

صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس: عدلیہ کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی گئی، چیف جسٹس

اس موقع پر درخواست گزاروں نے مؤقف اپنا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہی نہیں کی، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ کسی نے آپ کے نام اور رہائشی پتے کیسے استعمال کیے؟ کیا آپ بغیر اجازت درخواست دائر کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوائیں گے؟

ایم آصف نے عدالت میں بیان دیا کہ اگر آپ کی سرپرستی ہوگی تو ہم ایف آئی آر کٹوا دیں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم کیوں سرپرستی کریں؟ جس پر ایڈووکیٹ آن ریکارڈ رفاقت حسین شاہ کا کہنا تھا کہ جس ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے ذریعے درخواست دائر ہوئی ان کا انتقال ہو چکا ہے۔

دوران سماعت چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں کے وکیل حیدر وحید سے چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو صرف چکوال والے کلائنٹ ہی کیوں ملتے ہیں؟ ٹی وی پر بیٹھ کر ہمیں درس دیا جاتا ہے عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیئے، پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر عدالت میں پیش ہوکر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ ملک کو تباہ کرنے کے لیے ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے، سچ بولنے سے کیوں ڈرتے ہیں؟ وکیل کو اپنا ایڈووکیٹ آن ریکارڈ خود کرنے کا اختیار ہوتا ہے، کونسا مشہور آدمی چکوال میں بیٹھا ہوا ہے؟ گالیاں دینی ہوں تو ہر کوئی شروع ہو جاتا ہے لیکن کوئی سچ نہیں بولتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جانچ کے لیے معاملہ پنجاب فرانزک لیبارٹری کو بجھوا دیتے ہیں، اس پر ایڈووکیٹ حیدر وحید نے کہا کہ مجھے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے ہدایات دی تھیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا، کوئی غلط خبر پر یہ نہیں کہتا ہم سے غلطی ہو گئی ہے، غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں، بس فون اٹھایا اور صحافی بن گئے کہ ہمارے ذرائع ہیں، کسی کے کوئی ذرائع نہیں ہیں، ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکے جاؤ، باہر کے ملک میں ایسا ہوتا تو ہتک عزت کے کیس میں جیبیں خالی ہو جاتیں۔

صحافیوں کیخلاف مقدمات: کیس کو منطقی انجام تک پہنچاؤں گا، جسٹس محسن اختر کیانی

بعد ازاں مطیع اللہ جان کیس میں پیشرفت نہ ہونے پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) انویسٹی گیشن کو روسٹرم پر بلایا اور ریمارکس دیے کہ سامنے آؤ، واقعے کی ریکارڈنگ موجود ہے، اغواکاروں کا سراغ کیوں نہ ملا؟ ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے بتایا کہ ہمارے پاس سی سی ٹی وی موجود نہیں ہے

چیف جسٹس نے کہا کہ جھوٹ بولنے پولیس میں آئے ہو؟ یہ کیا بات کر رہے ہو؟ پولیس یونیفارم کی توہین کر رہے ہو، ریکارڈنگ موجود ہے اور کہہ رہے ہو ریکارڈنگ نہیں، کچھ پڑے لکھے بھی ہو یا نہیں؟ ایس ایس پی نے جواب دیا جی سر۔

چیف جسٹس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے دریافت کیا کہ کتنے سال ہو گئے ہیں پولیس میں؟ ایس ایس پی نے بتایا کہ مجھے پولیس میں 13 سال ہو گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ ایسے افسر کو ہٹایا کیوں نہیں جا رہا؟ فوری فارغ کریں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں ان کی طرف سے معافی مانگتا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ معافی کیوں، ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے، کارروائی کریں، میں بالکل مطمئن نہیں ہوں ان سے، یہ مذاق بنا رہے ہیں۔

بعد ازاں صحافی مطیع اللہ جان اغوا کیس میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد علی ناصر رضوی عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے آئی جی اسلام آباد سے مکالمہ کیا کہ آئی جی صاحب کیا کر رہی ہے آپ کی پولیس؟ علی ناصر رضوی نے جواب دیا کہ سر ہمیں کچھ وقت دے دیں میں خود اس کیس کو دیکھوں گا، کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں،

چیف جسٹسنے ریمارکس دیے کہ اچھا آپ ہمیں سکھا رہے ہیں کہ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں، کل میڈیا میں ہیڈلائن ہوگی کہ آئی جی اسلام آباد نے کہہ دیا کوئی قانون سے بالاتر نہیں، اسلام آباد پولیس کو کوئٹہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ پڑھائیں، کینیڈا کو دیکھیں کیسے انہوں نے دوسرے ملک کے باشندوں کے خلاف تحقیقات کیں، ہم لوگ اور ہمارے صحافی بہت خوش ہوئے کہ کسی اور ملک کے خلاف کینیڈا نے تحقیقات کیں مگر یہاں اسلام آباد پولیس کو خود سیکیورٹی چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ایک ایس ایس پی کے ساتھ گارڈز ہوتے ہیں جیسے ان کو کسی سے خطرہ ہے، جو پولیس کبھی ہماری حفاظت کرتی تھی اب ان کی حفاظت کی جاتی ہے، ایک پولیس افسر کے گرد پوری نفری گھوم رہی ہوتی ہے۔

صحافی مطیع اللہ نے عدالت کو بتایا کہ اغوا کے وقت میں نے موبائل پھینکا تھا جو پولیس لے گئی تھی، پولیس نے میرا موبائل واپس نہیں کیا۔

اس پر صحافی اسد طور نے بتایا کہ میرے موبائل بھی لے لیے گئے تھے جو آج تک واپس نہیں ہوئے، مجھ پر حملہ ہوا تو وہ لوگ موبائل پر بات کر رہے تھے مگر جیو فینسنگ نہیں کی گئی،

اس موقع پر تفتیشی افسر نے کہا کہ مطیع اللہ جان کا موبائل حملہ آور ساتھ لے گئے تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ یہ تو آسان تھا اگر موبائلز کا ڈیٹا نکال لیا جاتا تو ملزمان پکڑے جاتے، پولیس کو شاید ڈر تھا کہ موبائل کسی ایسی جگہ نہ ہو جن کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی، لگتا ہے اب پولیس والوں کی تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کو کہنا پڑے گا جیسے پولیس جے آئی ٹی بنا لیتی ہے ہم پولیس کے خلاف جے آئی ٹی بنا لیتے ہیں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ پولیس والے عدالت آکر سر سر کہہ کر مکھن لگاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں،آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ مجھے اسلام آباد کا چارج سنبھالے تھوڑا سا وقت ہوا ہے میں خود یہ ان کیسز کی نگرانی کروں گا۔

چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد سے مکالمہ کیا کہ کارروائی ہوگی یا اوپر سے آرڈر آجائے گا، مطیع اللہ جان اغوا کی تحقیقات کرنی والی پولیس ٹیم تبدیل ہوگی یا نہیں؟

بعد ازاں آئی جی اسلام آباد نے مطیع اللہ جان اغوا کیس میں تفتیشی افسران تبدیل کرنے کی یقین دہانی کروادی۔

آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ تفتیشی افسران تبدیل کر کے خود صحافیوں پر حملوں کے مقدمات دیکھوں گا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے صحافی ابصار عالم، مطیع اللہ جان اور اسد طور پر حملے کی تفتیش ایک ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دے دیتے ہوئے اسلام آباد پولیس کو 30 دن کی مہلت دے دی۔

اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ نے اسد طور حملہ کے ملزمان کے خاکے اخبارات میں شائع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے انعامی رقم مقرر کر کے اشتہار دیا جائے اور مطیع اللہ جان اغوا کی مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج پنجاب فارنزک لیب کو بھییج جائے۔

سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت جون تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے صحافیوں کو نوٹسز جاری کرنے کے حوالے سے کیس کی سماعت میں کہا تھا اگر حکومت مطیع اللہ جان کے کیس میں کچھ نہیں کرتی تو ایسا حکم دیں گے جو پسند نہیں آئے گا۔

اس سے قبل سماعت پر سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے صحافیوں کو جاری نوٹسز سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے 2 اپریل تک وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو صحافیوں کو گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

اس سے گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے صحافیوں کو جاری نوٹسز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں میڈیا اور صحافیوں کے ساتھ کیا ہوا، اس پر تو کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔

کیس کا پسِ منظر

واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اور ریاستی اداروں کے خلاف غلط معلومات اور منفی پروپیگنڈے کی تشہیر پر ایف آئی اے نے 47 صحافیوں اور یوٹیوبرز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب کر لیا تھا۔

ایف آئی اے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر چیف جسٹس اور ریاستی اداروں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے اور غلط معلومات کی تشہیر میں ملوث افراد کے خلاف اب تک 115 انکوائریاں رجسٹر کی جا چکی ہیں اور 65 نوٹسز بھی دیے جا چکے ہیں، ان ان نوٹسز کی سماعت 30 اور 30 جنوری کو ہو گی۔

جن 65 افراد کو نوٹسز جاری کیے گئے ہیں ان میں 47 صحافی اور یوٹیوبرز بھی ہیں جن میں چند نامور صحافی بھی شامل ہیں۔

جن 47 افراد کو نوٹسز جاری کیے گئے ان میں اسد طور، پارس جہانزیب، اقرار الحسن، صدیق جان، مطیع اللہ، سید اکبر حسین، دانش قمر، ثاقب بشیر، سجاد علی خان، سید حیدر رضا مہدی، شاہین صہبائی، سرل المیڈا، رضوان احمد خان، عدیل راجا، ریاض الحق، صابر شاکر، سید احسان حسن نقوی، محمد فہیم اختر، ثاقب حسین، سہیل رشید، ناصر محمود شامل ہیں۔

اس کے علاوہ احتشام وکیل جبران ناصر، احتشام نصیر، سبطین رضا، شیراز افضل، محمد افضل، محمد افضال بیلا، نصرین قدوائی، طیب اعجاز، انیلا منیر، ذیشان علی، حافظ شاکر محمود، ایاز احمد، طارق متین، سلمان سنگر، اظہر مشوانی، عدنان امل زیدی، عمران ریاض، اوریا مقبول جان، زاہد قیوم وڑائچ، عارف حمید بھٹی، نذر محمد چوہان، فضل جاوید، محمد اکرم، سارہ تاثیر اور متین حسنین کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔

بعدازاں چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اعلیٰ عدلیہ کے خلاف مبینہ مہم پر ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں و یوٹیوبرز کو نوٹس بھیج کر مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے کیس کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

30 جنوری کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے صحافیوں کو جاری نوٹسز پر کارروائی مؤخر کرنے کے لیے اٹارنی جنرل کی یقین دہانی پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی تھی۔

11 مارچ کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا اور صحافی ابصار عالم پر حملے کے مقدمات میں غیر تسلی بخش کارکردگی پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد پر شدید برہمی کا اظہار کیا، انہوں نے ریمارکس دیے کہ ٹی وی چینلز نے مجھ پر الیکشن میں گڑبڑ کا الزام تصدیق کے بغیر چلایا۔

Read Comments