افغانستان میں طالبان کے درمیان بڑھتی ہوئی نسلی کشیدگی کے درمیان ایک بہت بڑی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے، طالبان کے ایک ممتاز تاجک رکن عبدالحمید خراسانی نے طالبان حکومت کے لیے اپنے گروپ کی خدمات ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
عبدالحمید خراسانی کا منحرف ہونا طالبان کی حکومت کے لیے ایک دھچکا ہے، جو اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مسلسل اندرونی اختلافات اور بیرونی دباؤ کا شکار ہے۔
عبدالحمید خراسانی نے اپنے گروپ سمیت طالبان کی صفوں میں موجود وسیع نسلی امتیاز کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے ہتھیار سرینڈر کر دیے ہیں۔
حماس کی قید میں ایک اور اسرائیلی یرغمالی ہلاک
افغان خبر رساں ایجنسی ”آماج نیوز“ کے مطابق عبدالحمید خراسانی نے طالبان سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ ’ہم مزید غلام نہیں رہ سکتے‘۔
طالبان کی بدری یونٹ کے سابق کمانڈر عبدالحمید خراسانی نے اپنے ہتھیاروں کو سرنڈر کرتے وقت، آماج نیوز کو ایک پیغام میں لکھا، ’ہمیں پشتون عوام چور اور ٹھگ سمجھتے ہیں۔‘
گزشتہ روز بھی اس گروپ نے ایک ویڈیو پیغام میں غیرپختون طالبان کے ساتھ مسلسل نسلی امتیاز برتے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو تنبیہ جاری کی تھی۔
خیال رہے کہ افغان ذارائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ پشتونوں اور تاجکوں کے درمیان نسلی کشمکش میں شدت آتی جا رہی ہے۔
افغانستان میں سیلاب سے 300 سے زائد افراد جاں بحق
عبدالحمید خراسانی کا فیصلہ افغانستان کی متنوع آبادی میں موجود گہری شکایات کی نشاندہی کرتا ہے۔
تاجک طالبان کے یہ رکن نسلی امتیاز کے حوالے سے اپنے تحفظات کے بارے میں آواز اٹھا رہے ہیں، یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو ملک بھر میں بہت سے تاجکوں اور دیگر گروہوں میں گونج رہا ہے۔
مصر نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دے دی
افغانستان کے نازک استحکام پر اس گروپ کے انخلا کے مضمرات دیکھنا ابھی باقی ہیں، کیونکہ ملک سیاسی، نسلی اور سیکورٹی چیلنجوں کے پیچیدہ جال سے گزر رہا ہے، خاص طور پر جب داعش خراسان مقامی افغانوں جن میں بیشتر غیرپختون لوگ شامل ہیں، انہیں بھرتی کر کے افغانستان میں زمین حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اور طالبان کی پشتون اکثریتی حکومت کے خلاف بغاوت شروع کیے ہوئے ہے۔