قرضوں کے نئے پروگرام سے متعلق بات چیت کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا مشن پاکستان میں موجود ہے۔ مشن پاکستانی حکام سے آج مذاکرات شروع کرے گا۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تعارفی سیشن وزارت خزانہ میں ہوگا۔
ایک درجن ممبران پر مشتمل آئی ایم ایف مشن نئے پروگرام پر بات چیت کرے گا۔
پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز نے گزشتہ روز بتایا تھا کہ آئی ایم ایف کا مشن ناتھن پورٹر کی قیادت میں قرضوں کے لیے اگلے پروگرام سے متعلق معاملات طے کرنے کے لیے مذاکرات کرے گا۔
فریقین لچک دار معاشی ترقی کی بنیادی رکھنے کے حوالے سے بات چیت پر زیادہ متوجہ ہوں گے۔ عالمی مالیاتی ادارے سے پاکستانی حکام جو مذاکرات کریں گے اُس کے نتیجے میں معیشت اور حکمرانی دونوں حوالوں سے بہتر نتائج متوقع ہیں۔
نئے قرضوں کا حصول یقینی بنانے کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران متعدد شرائط کی قبولیت پر رضامند ہونا پڑا ہے۔ آئی ایم ایف نے ٹیکس نیٹ میں توسیع کے لیے مختلف تجاویز دی ہیں جن کے تحت تنخواہ دار طبقے سے مزید ٹیکس لیے جانے کا امکان ہے۔ چھوٹے تاجروں اور دکان داروں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے زیادہ کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ حکومت معیشت کو ڈاکیومینٹ کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔
نگراں حکومت اور اس سے قبل پی ڈی ایم کی حکومت بھی آئی ایم ایف سے مذاکرات کے حوالے سے کہتی رہے کہ معیشت کو درست کرنے کی خاطر سخت اور نامقبول فیصلے کرنا ہوں گے۔ آئی ایم ایف کی ٹیموں سے مذاکرات میں پاکستان سے کہا جاتا رہا ہے کہ ریوینو کا ہدف بڑھائے اور وصولی یقینی بنائے۔ متمول طبقے پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کی بات بھی ہوتی رہی ہے تاہم اس حوالے سے زیادہ حوصلہ افزا قسم کے اقدامات اب تک نہیں کیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ معاشی استحکام چاہیے تو آئی ایم ایف کی طرف جانا پڑے گا، معیشت کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ اگر ہم نے روش نہ بدلی تو آئی ایم ایف کے پچیسویں پروگرام میں جانا پڑے گا۔