صدر مملکت اور وزیراعظم نے آزاد کمشیر میں مظاہرین کے ’حقیقی مطالبات‘ کو حل کرنے کے لیے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ادھر کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اور آزاد جموں و کشمیر حکومت کے درمیان مذاکرات ناکام ہونے پر احتجاجی تحریک نے مطفر آباد سے اپنا مارچ دوبارہ شروع کردیا ہے۔ اب اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ رینجرز کے دستے برار کوٹ کے راستے آزاد کشمیر میں داخل ہوئے ہیں اور اہلکاروں کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔
واضح رہے کہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ میں ایک سب انسپکٹر جاں بحق ہوچکا ہے جبکہ خطے میں مجموعی طور پر صورتحال قدرے پُرامن ہے لیکن ہڑتال کی وجہ سے مظفرآباد اور پونچھ اضلاع میں کاروبار اور پبلک ٹرانسپورٹ بند ہے۔ ادھر میرپور میں جزوی ہڑتال ہے۔
راولاکوٹ میں جے ای اے سی کی کور کمیٹی اور آزاد جموں و کشمیر کے چیف سیکرٹری داؤد بڑیچ کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہونے کے بعد تحریک نے ریاستی دارالحکومت کی طرف مارچ کا اعلان کیا۔ جس سے راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک احتجاجی رہنما نے حکومت پر مکروہ ہتھکنڈوں کا سہارا لینے کا الزام لگایا۔
ملاقات کے بعد ایک ویڈیو کلپ میں سردار عمر نذیر کشمیری نے کہا کہ ملاقات کوئی پیش رفت کرنے میں ناکام رہی، اس میں چوری، تاخیری حربے، جھوٹ، دھوکہ دہی اور فریب تھا۔ ویڈیو کلپ کے بعد راولاکوٹ میں لاؤڈ اسپیکرز پر مظاہرین سے دارالحکومت کی طرف اپنا سفر دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
احتجاج کے پیش نظر آج پیر کو سرکاری دفاتر اور تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔
اعلانات سے قبل ایکشن کمیٹی کے نمائندوں نے نجی چینل کو بتایا کہ انہیں حکومت کے ساتھ مذاکرات کے مثبت نتائج کی توقع تھی، ان توقعات کی روشنی میں عوام سے کہا گیا کہ وہ ریلیاں نہ نکالیں اور نہ ہی پولیس کا سامنا کریں۔
دوپہر کے وقت ریاستی دارالحکومت میں کچھ ضروری کاروبار بھی 3 گھنٹےتک کھلے رہے۔ اسی طرح کے مناظر راولاکوٹ سے رپورٹ ہوئے، جہاں میرپور، کوٹلی، بھمبر، سدھنوتی اضلاع اور پونچھ ضلع کے کچھ حصوں سے کارکنوں کو لے جانے والی گاڑیوں کے علاوہ سڑکوں پر چند کاریں دیکھی گئیں۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق میرپور اور پونچھ ڈویژن سے ریلیاں مظفرآباد کے لیے راولاکوٹ میں جمع ہوئیں اور لوگ سڑکوں کے دونوں طرف قطاریں بنا کر مظاہرین کا استقبال کرتے نظر آئے۔
جوائنٹ کمیٹی کے رکن شوکت نواز میرنے رینجرز کی واپسی کو ’احسن اقدام‘ قرار دیا تھا۔ تاہم رات گئے رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ رینجرز آزاد جموں و کشمیر کے علاقے میں دوبارہ داخل ہو گئے ہیں۔
رینجرز کےدستے برارکوٹ کےراستےآزاد کشمیر میں داخل ہورہے ہیں
اس حوالے سے تازہ اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ مظفر آباد میں رینجرز کےدستے برارکوٹ کےراستےآزاد کشمیرمیں داخل ہورہے ہیں جبکہ مظاہرین کی جانب سے اہلکاروں کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔
ذرائع کے مطابق مظاہرین نے ٹولیوں کی صورت میں رینجرز دستے اور تھانہ صدر پولیس پارٹی پر پھتراؤ کیا ہے جس میں 2 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔
عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات
واضح رہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کا پہلا مطالبہ ہے کہ پیداواری لاگت پر بجلی فراہم کی جائے، دوسرا مطالبہ گلگت کے برابر نرخوں پر آٹا فراہم کرنے کا ہے اور تیسرے مطالبے میں اشرافیہ کی مراعات میں کمی کی مانگ کی گئی ہے۔
اتوار کو ایوان صدر میں بلائے گئے اجلاس میں آزاد کشمیر کے وزرا نے احتجاج اور مطالبات سے صدر مملکت کو آگاہ کیا۔ صدر مملکت کی جانب سے پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کی قیادت کو بھی اسلام آباد طلب کیا گیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر چوہدری یاسین نے حکومت کے اتحادی ہوتے ہوئے بھی حکومت کے پر تشدد رد عمل کی مذمت کی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اتوار کو آزاد کشمیر حکومت میں شامل اپنی جماعت کے صدر شاہ غلام قادر سے احتجاج اور پُرتشدد واقعات پر رپورٹ طلب کی تھی۔
اتوار کو وزیراعظم شہباز شریف نے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں کہا تھا کہ آزاد جموں و کشمیر کی صورتِ حال پر گہری تشویش ہے، بدقسمتی سے ہم افراتفری اور اختلاف کے حالات میں ہیں اور سیاسی پوائنٹ سکور کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔
وزیراعظم نے لکھا تھا کہ بحث مباحثہ اور پرامن احتجاج جمہوریت کا حسن ہے، لیکن قانون کو ہاتھ میں لینے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے میں کوئی رواداری نہیں ہونی چاہیئے۔
غذائی اجناس لانے والی گاڑیاں راستوں کی بندش کی وجہ سے نہ پہنچ سکیں، مظفرآباد اور دیگر شہروں میں گھروں میں موجود اشیائے خورونوش ختم ہوگئیں۔
سستے آٹے کے حصول اور مہنگی بجلی کےخلاف احتجاجی تحریک کے باعث عوام فاقوں پر مجبور ہونے لگے ہیں۔
مظفرآباد میں میڈیکل اسٹورز بند ہونے کی وجہ سے مریض پریشان ہیں۔ شوگر، دل اور بلڈ پریشر کے مریضوں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں۔ اسپتالوں میں زیر علاج مریضوں کو بھی ادویات دستیاب نہیں ہیں۔