8 فروری 2024 کے انتخابات سے قبل کچھ حلقوں سے یہ خبر باہر آئی کہ خیبر پختونخوا کے اگلے وزیر اعلی علی امین گنڈہ پور ہونگے ۔یہ وہ وقت تھا کہ جب علی امین سمیت پی ٹی آئی کی تمام لیڈر شپ منظر سے غائب تھی۔ وزیر اعلی شپ کے لئے پشاور کے ایک اور اُمیدوار کے ہوتے ہوئے یہ خبر یقیناً قابل غور تھی کہ کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ایک ایسے شخص کی وزیر اعلی شپ کے لئے بات کی جارہی ہے جس پر دو درجن سے ذائد مقدمات ہیں اور ان میں سے کچھ تو مبینہ طور پر سنگین بھی ہیں لیکن پھر الیکشن کی رات کے ڈھلتے ہی جو منظر نامہ بنا اُس نے علی امین گنڈہ پور کی وزیر اعلی کے طور پر نامزدگی پر ہاں کی مہر لگا دی۔ مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ لگ بھگ ساڑھے 4 دہائیوں کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان جیسے نہایت اہم لیکن انتہائی نگلکٹڈ ضلع کو وزیراعلی شپ ملنے والی تھی اور اسی کے پیش نظر میں نے ایک ٹوئیٹ کردی۔ وہ ٹوئیٹ دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوئی اور کئی لوگوں نے مجھے کہا کہ آپ علی امین گنڈہ پور کی طرف داری کر رہی ہیں۔ یہ سوال اس لئے کیا گیا کیونکہ علی امین گنڈہ پور کے بات کرنے کا اسٹائل، لہجہ اور مزاج دونوں ایسے ہیں کہ جس میں مفاہمت کم اور مزاحمت کا عنصر زیادہ ہے۔وفاقی وزیر ہوتے ہوئے بھی انکا رویہ ہمشیہ لڑنے مرنے والا رہا۔ پھرعمران خان صاحب کی گرفتاری کے بعد جس طرح کا ماحول بنا اس میں علی امین گنڈہ پور کی جو مبینہ آڈیوز آئیں ان کا بھی مجھے حوالہ دیا گیا کہ آپ ایسے شخص کو فیور کر رہی ہیں۔
اور میرا جواب صرف ایک ہی تھا کہ مجھے شخصیت سے زیادہ اپنے علاقے کی محرمیوں سے غرض ہے اور اگر وہ محرومیاں کوئی بھی ختم کرے تو ہمارا ساتھ اُسے حاصل ہوگا۔
کچھ پشتو چینلز کے اینکرز نے بھی اپنے پروگرامز میں بلا کر مجھ سے اسی قسم کے سوال پوچھے تو بھی میں نے یہی کہا کہ کرسی اور ذمہ داری کا ایک تقاضا ہوتا ہے اور مجھے اُمید ہے کہ علی امین گنڈہ پور اُسے نبھائیں گے۔
وزیراعلی صاحب کے عہدہ سنبھالنے کے دو روز تک تو وہ بھی سنبھلے نظر آئے لیکن پھر پی ٹی آئی ورکرز کے ہاتھوں اسمبلی کے فلور پر ہراسمنٹ کا شکار ہونے والی خاتون ممبر اسمبلی صوبیہ شاہد کے بارے میں ایک صحافی کو دیے گئے بیان پر میں نے جب ان سے کہا کہ آپکو یہ بیان نہیں دینا چاہیے تھاتو وہ مسکرا کر بولے تو پھر کیا کہتا۔
میں کہا کہ ’چپ رہتے‘۔
تو بولے ’نہیں یہ تو میں نہیں کر سکتا‘۔
تب وہ پہلا لمحہ تھا کہ جس میں مجھے احساس ہوا کہ جس کرسی میں مجھے ذمہ داری اور تحمل دکھائی دے رہا تھا اُسی کرسی میں ان پر اپنے کارکنوں کو مطمئن کرنے کی بھی ذمہ داری عائد ہے۔ وہ کارکن جن کی تربیت اس طرح سے کی گئی کہ سچ صرف وہ ہے جو وہ کہہ رہے ہیں باقی سب جھوٹے، چور ،لٹیرے اور دھوکہ باز ہیں۔
اب ایسے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے اُسی زبان میں بات کرنا پڑرہی ہے جسکی انہیں عادت ڈالی گئی۔
اور یہ مجبوری صرف علی امین گنڈہ پور کی نہیں ہر پارٹی لیڈر کی ہے کیونکہ ہم نے دیکھا کہ مفاہمت کی بات پی ٹی آئی ورکرز کو ہضم نہیں ہوتی وہ صرف مزاہمت کرنا جانتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر لیڈر ان کی زبان بولتا نظر آتا ہے۔
اور یہی کچھ وزیر اعلی صاحب بھی کرتے ہیں۔
یعنی کے دبنگ انداز
قبضہ کر لوں گا
نہیں چھوڑوں گا
میرا ڈسا پانی نہیں مانگتا
ابھی الیکشن ہوئے ایک ماہ ہی ہوا تھا کہ خیبر پختونخوا کے گورنر کی تبدیلی کی باتیں ہونے لگیں۔ کئی نام آئے گئے لیکن ہر بار فیصل کریم کنڈی کے نام پر بات بنتی نظر آتی۔ اگرچہ پارٹی کے اندر ان کی قبولیت کم تھی لیکن جہاں سے نام فائنل ہونا تھا وہ قیادت اُنکے حق میں تھی اور یہ خبر میرے لئے مزید خوشی کا باعث تھی۔
21 اپریل کو ضمنی الیکشن کی رات ڈیرہ سے آنے والی ایک کال نے مجھے مسکرانے پر مجبور کر دیا کہ جب دوسری طرف کہا گیا کہ دو روز بعد ڈیرہ کا گورنر بھی آرہا ہے۔
ہاں لگتا تو ہے، میں نے جواب دیا۔
ارے نہیں لگتا نہیں، ہو گیا ہے، دوسری طرف کی بے تابی دیدنی تھی۔
میں نے فون کرنے والے سے ایک دم پوچھا
آپ کیوں اتنے خوش ہیں؟
’ارے خوش کیوں نا ہوں، وزیر اعلی بھی ہمارا اور گورنر بھی، ڈیرے کے تو بھاگ ہی جاگ جائیں گے‘
’اچھا! لیکن اُنکی تو آپس میں بنتی ہی نہیں‘
مجھے شرارت سوجھی،
’اس سے کیا فرق پڑتا ہے عہدے تو ڈیرہ کے پاس ہونگے، دونوں ہی اپنے لوگوں کو کچھ نہ کچھ ریلیف دیں گے‘۔
دوسری طرف کا اطمینان میرے ذہن میں کئی سوال چھوڑ گیا۔
کیا واقعی ایسا ہی ہو گا؟
’کیا یہ دونوں اپنے اختلاف بھلا کر ایک ہو کر اپنے لوگوں کی محرومیوں کا سوچیں گے؟‘
’کیا ڈیرہ کے بھاگ واقعی جاگ جائیں گے؟‘
’کیا دو دہائیوں سے زائد عرصے سے دہشت گردی کی آگ میں جلتے ڈیرہ کو ہم پھر سے پھلاں دا سہرا بنا پائیں گے؟
انہی سوالوں میں گھرے کچھ روز بعد میں نے دیکھا کہ وزیر اعلی ہاوس کے دروازے سے تھوڑا آگے گورنر ہاوس کا مکین بھی ڈیرہ وال آگیا۔
جس طرح وزیر اعلی کی حلف برداری میں آدھا ڈیرہ گورنر ہاوس پہنچا ہوا تھا اسی طرح گورنر کی حلف برداری میں بھی ڈیرہ والوں کی گاڑیوں سے ریڈ زون کے راستے بند تھے۔
خوشی ہوئی کہ ایک محروم اور پسماندہ علاقے کو دو زبانیں مل گئیں۔
اب ہمارا مقدمہ بہترین انداز میں سامنے آئے گا۔ لیکن یہ خوشی اُس وقت ہوا ہو گئی جب سٹیج پر صرف دو کرسیاں دیکھیں۔ کیا وزیر اعلی صاحب نہیں آئیں گے؟ میں نےایک آرگنائزرز سےسوال پو چھا
جواب ملا ’نہیں جی‘۔
اور وزیر اعلی صاحب نہیں آئے کیونکہ وہ فارم 47 والوں کو قانونی حیثیت نہیں دینا چاہتے تھے (ایسا بیان دیا انھوں نے) لیکن گورنر خیبرپختونخوا نے حلف اٹھانے کے بعد متانت بھرے لہجے میں وزیر اعلی صاحب کو صوبے کا مقدمہ ساتھ لڑنے کے لئے آفر کی تو دل کو زرا سی تسلی ہوئی کہ چلو کہیں سے تو بات شروع تو ہوئی۔
پر دوسری طرف ”میں نا مانوں“ والا رویہ۔ ہر روز کی بیان بازی ۔ایک کا بیان دوسرے کا جواب ۔ایک کی دھمکی ۔دوسرے کی للکار اور پھر ہر حد کراس ہو گئی۔
ایک نے سڑک پر گھسیٹنے کی بات کی تو دوسرے نے گورنر ہاوس سے ہی نکالنے کی دھمکی دے دی۔
دونوں کے بیانات میں بڑھتی تلخی دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ ہمارے ہاں کی تعیناتیوں اور ہمارے بیچ کچھ ایسا ہے جو ہمیں ہمارا نہیں ہونے دے رہا ہے اور یہ خیال نجانے کیوں ابا کی وفات والی رات کے منظر میں لے گیا۔
گذشتہ سال والد کی اچانک وفات پر مجھے رات 12 بجے پشاورسے ڈیرہ جانا پڑا۔ رات پھر انڈس ہائے وے کے کھڈوں سے لڑتے لڑتے اُبھرتے سورج کی روشنی میں ڈیرہ کا دھول مٹی سے اٹا چہرہ دیکھ کر ابا کو کھونے کے ساتھ ساتھ اپنوں کی محرومیوں پر دل خون کے آنسوں روتا رہا کچھ روز بعد جب پشاور واپس آرہی تھی تو سی پیک روڈ کا راستہ لیا۔
خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ سے اُسی صوبے کے دارلحکومت میں آنے کے لئے جب مجھے پنجاب کے سرسبز لہلہاتے کھیتوں سے گزر کر آنا پڑا توکہیں اپنی بنجر زمین اور کہیں ریگستان سماں بیابان میں اُڑتی دھول کو دیکھ کردل بہت تڑپا اور تب بھی میں خود سے سوال کرتی رہی کہ ہمارے ہموار راستوں کے بیچ کسی اور کی زمین کیوں آجاتی ہے۔
کیوں؟؟