مشہور بالی ووڈ اسٹارعامر خان نے انکشاف کیا ہے کہ فلم ’سرفروش‘ کی ٹیم کو پاکستان اور آئی ایس آئی کے حوالے سے سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفکیشن کی جانب سے فلم کی منظوری ملنے پر تحفظات تھے۔
خان اور ان کے ساتھیوں نے جمعہ کی رات سرحد پار دہشت گردی سے نمٹنے والی کلاسک فلم کی 25 ویں سالگرہ منائی۔
جان میتھیو متھن کی ہدایت کاری میں بننے والی یہ فلم 30 اپریل 1999 کو کارگل جنگ کے وقت سینما گھروں کی زینت بنی تھی، جب بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی عروج پر تھی۔
انہوں نے کہا، ’ان دنوں ایک اصول تھا کہ آپ ملک کا نام نہیں لے سکتے۔ ہم ’پڑوسی ملک‘ یا ’دوست ملک‘ کہیں گے۔ لہٰذا ہم ایک خطرہ مول لے رہے تھے اور کیا سنسر بورڈ فلم کو پاس کرے گا یا نہیں کیونکہ ہم نے پاکستان اور آئی ایس آئی کا نام لیا تھا۔
ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
عامر خان نے مزید کہا، لیکن ہمارا نکتہ یہ تھا کہ اگر ایڈوانی جی پارلیمنٹ میں کہہ سکتے ہیں تو ہم سنیما ہالوں میں کیوں نہیں کہہ سکتے۔ خوش قسمتی سے، فلم پاس ہوگئی۔
فلم کی کہانی ایک ایماندار پولیس افسر اجے سنگھ راٹھوڑ کے گرد گھومتی ہے، جو ایک مشہور پاکستانی غزل گلوکار گلفام حسن سے ملتا ہے اور اس سے دوستی کرتا ہے۔ راٹھوڑ کی زندگی اس وقت موڑ لیتی ہے جب وہ راجستھان میں اسلحے کی اسمگلنگ کی تحقیقات کے دوران ایک بڑی سازش کا پردہ فاش کرتا ہے۔
اپنی ریلیز کے بعد ، فلم نے وسیع پیمانے پر تنقیدی تعریف اور تجارتی کامیابی حاصل کی۔ اس نے صحت مند تفریح فراہم کرنے والی بہترین مقبول فلم کا قومی فلم ایوارڈ بھی جیتا۔
سینئر اور تجربہ کار اداکار شاہ نے غزل گلوکار حسن کا کردار ادا کرنے پر سامعین، خاص طور پر پاکستانی عوام کی جانب سے ملنے والی پذیرائی کو یاد کیا۔ اور کہاکہ مجھے فیس بک پر نوٹیفیکیشن موصول ہوتا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ ’میں اصل گلفام حسن ہوں‘۔
شاہ نے کہا کہ، اس فلم کو پاکستان میں زیادہ پسند کیا گیا۔ میں پچھلے کچھ سالوں سے وہاں نہیں گیا ہوں لیکن جب بھی میں وہاں جاتا ہوں، لوگ ہمیشہ ’سرفروش‘ کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ انہیں میرا کام پسند آیا، حالانکہ میں نے سوچا تھا کہ وہ مجھے ماریں گے۔