بھارت کے معروف دانشور، تجزیہ کار اور سابق حکمراں جماعت کانگریس کے مرکزی رہنما منی شنکر اَیّر نے کہا ہے کہ مودی سرکار چاہے تو پاکستان سے سخت لہجے میں بات کرسکتی ہے مگر بات ضرور کی جائے۔ پاکستان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ایک انٹرویو میں منی شنکر ایر نے کہا کہ اختلافی امور پر بات سے سیرحاصل گفت و شنید ہوسکتی ہے اور کہیں کہیں غیر معمولی طور پر غیر لچک دار رویہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے تاہم اُسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر پاکستان کو مسلسل نظر انداز کیا جائے اور اُس کا احترام نہ کیا جائے تو وہ ایٹم بم بھی مار سکتا ہے۔
منی شنکر ایر کا کہنا تھا کہ پاک بھارت تعلقات میں متواتر سرد مہری اچھی بات نہیں۔ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی طرف جانا چاہیے۔ لازم ہے کہ بات چیت جاری رہے اور تعلقات معمول پر لائے جائیں۔
ایک سوال پر منی شنکر ایر نے کہا کہ مودی سرکار پاکستان سے معاملات درست کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہو رہی۔ اگر بھارت نے طاقت کے استعمال کے آپشن کو ترجیح دی تو پاکستان ایٹمی اسلحہ بروئے کار لانے پر بھی مجبور ہوسکتا ہے۔
منی شنکر ایر کا استدلال تھا کہ بھارت کو بھی لچک دکھاتے ہوئے پاکستان سے معاملات درست کرنے پر متوجہ ہونا چاہیے۔ محاذ آرائی کا تسلسل اچھی بات نہیں۔ اگر کسی پاگل نے لاہور پر ایٹمی ہتھیار سے حملہ کیا تو تابکاری کو امرتسر تک پہنچنے میں صرف 8 سیکنڈ لگیں گے۔
کانگریس کے مرکزی رہنما کا کہنا تھا کہ پاکستان کا احترام کیا جائے تو وہ پُرامن رہے گا۔ غیر ضروری کشیدگی کی گنائش نہیں۔ اگر کوئی سرپھرا کچھ کرنے پر تُل گیا تو بہت تباہی ہوگی۔
نریندر مودی کا نام لیے بغیر منی شنکر ایر نے کہا کہ اگر ہمیں ’وشو گرو‘ (ورلڈ لیڈر) بننا ہے تو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم پاکستان سے اپنے معاملات کو درست کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک عشرے کے دوران سنجیدگی سے کچھ نہیں کیا گیا۔
منی شنکر ایر کا شمار بھارت کے اُن دانشوروں میں ہوتا ہے جو ہمیشہ پاکستان سے گفت و شنید جاری رکھنے اور تعلقات بہتر بنائے رکھنے کی وکالت کرتے آئے ہیں۔
منی شنکر ایر نے 1980 کے عشرے میں پاک بھارت تعلقات میں پائی جانے والی پیچیدگیوں کے حوالے سے ’پاکستان پیپرز‘ کے زیرِعنوان کتاب لکھی تھی جس کی دونوں ملکوں میں غیر معمولی پذیرائی کی گئی تھی۔