حکومت آزاد کشمیر نے جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی احتجاجی کال کے پیش نظر 10 اور 11 مئی کو تعلیمی اداروں میں دو روزہ تعطیل کا اعلان کردیا ہے، جبکہ پولیس نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے آزاد کشمیر کے تمام اضلاع میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے، انسپکٹر جنرل پولیس نے آزاد کشمیر میں انتشار پھیلانے میں بھارتی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے۔
جمعرات کو حکومت کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج کے دوران 10 اور 11 مئی کو تمام اسکولز، کالجز اینڈ اکیڈمیز میں عام تعطیل ہوگی۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ آزاد کشمیر میں تعلیمی ادارے دو روز کے لیے بند رہیں گے تاکہ عوامی ایکشن کمیٹی کی احتجاجی کال کے باعث ممکنہ طور پر کشیدگی کے دوران کوئی ناخوشگوار صورت حال پیدا نہ ہو۔
حکومت کی جانب سے آزاد کشمیر میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف اضلاع میں دفعہ 144 بھی نافذ کر دی گئی ہے، جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے رات 12 بجے سےآزاد کشمیر بھر میں پہیہ جام شٹر ڈاؤن کی کال دے رکھی ہے۔
حکومت کی جانب سے ضلع مظفرآباد، ضلع میرپور، کوٹلی، بھمبر، پونچھ، حویلی، سدھنوتی، نیلم اور ضلع جہلم ویلی میں 10 روز کیلئے دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے۔
دارالحکومت مظفرآباد کے چوکوں، چوراہوں، سڑکوں اور بازاروں میں پولیس کا گشت بھی بڑھا دیا گیا ہے۔
دوسری جانب جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کال سے قبل ہی پولیس نے عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا ہے، جس کے تحت ڈڈیال سمیت متعدد شہروں سے عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔
انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) آزاد کشمیر سہیل حبیب تاجک کا کہنا ہے کہ پولیس نے کچھ ایسے گروپس پکڑے ہیں جن میں 25، 25 لوگ شامل تھے، ان لوگوں کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ امن و امان کی صورت حال خراب کرنے اور انتشار پھیلانے کے لیے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیز کے پے رول پر ہیں۔
سہیل حبیب تاجک نے بتایا کہ اس وقت بھی آزاد کشمیر میں لوگ ہٹ لسٹ پر ہیں، اور فسادات، جلاؤ گھیراؤ، قتل اور ٹارگٹ کلنگ سے انتشار پھیلانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آزاد کشمیر میں ساڑھے 7 ہزار پولیس اہلکار ہیں، عوامی ایکشن کے احتجاج کے دوران امن وامان کی بحالی کے لیے ساڑھے 5 ہزار پولیس اہلکاروں تعینات کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر ایک پُرامن خطہ ہے جو کسی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا، پاکستان کی نسبت آزاد کشمیر میں امن وامان مثالی ہے، آزاد کشمیر کی پرامن فضا کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ احتجاجی مظاہروں کے نتیجہ میں سیاح آزاد کشمیر کا رخ نہیں کریں گے، بھارت کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ کی خبریں بین الاقوامی میڈیا پر چھپ چکی ہیں۔ راولاکوٹ میں ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ سب کے سامنے ہے۔
دوسری جانب وزیرِ داخلہ آزاد کشمیر کرنل (ر) وقار احمد نور، وزیر بلدیات فیصل ممتاز راٹھور اور وزیر تعلیم دیوان علی خان چغتائی نے بھی اس حوالے سے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی۔
وزیر داخلہ آزاد کشمیر کا کہنا تھا کہ حکومت قطعاً کسی سے ٹکراؤ نہیں کرنا چاہتی نہ ایسا کوئی ارادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام کے جان ومال کے تحفظ حکومت کی ذمہ داری حکومت کی ہے اور حکومت ذمہ داری ادا کرنے کی بھرپورصلاحیت رکھتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایکشن کمیٹیز سے آج بھی مذاکرات کے لیے تیار ہے، تاہم، امن میں خلل ڈالنے اور انتشار پھیلانے کی کوشش کو آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ شہریوں سے اپیل ہے وہ ایسے عمل سے دور رہیں جو انتشار اور بدامنی کا باعث بنے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ڈڈیال میں آج 4 گھنٹے تک ایک ریاستی افسر کو یرغمال بنایا گیا اورایک سرکاری گاڑی کو جلایا گیا، ڈڈیال میں محدود کارروائی صرف امن وامان برقرار رکھنے کیلئے کی گئی، اس دوران شرپسند عناصر نے ایک شیل کو اٹھاکر نزدیکی اسکول میں پھینک دیا اور پروپیگنڈا کیا گیا کہ ایک اسکول کی بچی ہلاک ہوگئی، لیکن اللہ کے فضل سے ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
وزیر بلدیات فیصل ممتاز راٹھور نے بتایا کہ ایکشن کمیٹیز نے 10 نکات رکھے ہیں جن پر عملدرآمد کیلئے حکومت نے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 70 سال کے مسائل سات آٹھ مہینوں میں حل نہیں ہوسکتے۔
فیصل ممتاز راٹھور نے کہا کہ حکومت معنی خیز مذاکرات کے لیے ہمہ وقت تیار ہے، ایکشن کمیٹیز سے مذاکرات خوش اسلوبی سے چل رہے تھے کہ ان کی جانب سے احتجاج کی کال آگئی، ایکشن کمیٹیز نے 26 اپریل کو اچانک ایک لیٹر بھیجا جس میں گیارہ مئی کی ہڑتال کا اعلان سامنے آیا، ایکشن کمیٹیز کو جواب میں حکومت نے کہا کہ مذاکرات کیلئے دروازے ہمہ وقت کھلے ییں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ایف سی اور پی سی کی تعیناتی کے حوالے سے بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا گیا، امن عامہ قائم کرنے کیلئے آزاد کشمیر کی پولیس کی تعیناتی کی گئی، کہیں کوئی فرنٹئیر کور (ایف سی) یا پنجاب کانسٹیبلری (پی سی) کا کوئی جوان بھی نظرآئے تو بتائیں۔
وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق اور وزیر داخلہ وقار نور کی طرف سے آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹیوں سے نمٹنے کیلئے پنجاب کانسٹبلری کی خدمات لینے کی بات پر حکومت کے اہم اتحادیوں نے اسمبلی اجلاس میں شدید مخالفت بھی کی، سابق صدر و وزیر اعظم سردار یعقوب خان، سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ پونچھ میں کوئی فورس بھیجی گئی تو اس کے نتاےج ٹھیک نہیں ہوں گے۔
آزادکشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹیوں کا وجود 8 مئی 2023ء کو راولاکوٹ میں آٹے کے بحران کے نتیجے میں احتجاج شروع ہونے کے بعد عمل میں آیا، جسے ابتدئی طور پر پونچھ عوامی ایکشن کمیٹی کا نام دیا گیا۔
راولاکوٹ سے شروع ہونے والی یہ تحریک اس وقت پورے آزاد جموں و کشمیر میں پھیل گئی جب محکمہ برقیات کی جانب سے ماہ اگست کے بجلی بل تقسیم کیے گئے۔ حکومت نے بجلی بلوں میں پروٹیکٹڈ اور ان پروٹیکٹڈ کی دو نئی اصطلاحات متعارف کروا کر لوگوں پر حقیقتاً بجلی کا بم گرا دیا اور 200 یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کو جب بجلی کا دگنا بل وصول ہوا تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔
حکومت کے اس اقدام کے خلاف مظفرآباد میں طلبا نے احتجاج شروع کیا جس میں تاجروں نے بھی اپنا وزن ڈال دیا اور 31 اگست 2023 کو مظفرآباد بھر میں شٹرڈاؤن اور پہیہ جام کی کال دے دی گئی۔
پونچھ میں ایکشن کمیٹی نے آٹے کے ساتھ ساتھ بجلی کو بھی موضوع بحث بنا لیا اور ساتھ ہی میرپور کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا جہاں دونوں ڈویژنز میں وکلا کمیونٹی کی بھرپور سپورٹ کے ساتھ پانچ ستمبر کو شٹرڈاؤن اور پہیہ جام کی کالیں دے دی گئیں۔
آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد میں تاجروں اور طلبا نے مل کر زندگی کے دیگر شعبوں کے متحرک لوگوں سے رابطے شروع کیے اور اس طرح مختلف سیاسی جماعتوں، تمام کاؤنسلرز، بار ایسوسی ایشنز اور سول سوسائٹی کے دیگر طبقات نے 31 اگست کی ہڑتال کو مؤثر بنانے کے لیے کوششیں تیز کر دیں۔
اکتیس اگست کو مظفرآباد میں قدیمی عزیزچوک میں جلسہ عام منعقد ہوا جس میں حکومت سے بجلی کے ناجائز بل واپس لینے کی بات کی گئی اور ساتھ ہی مظفرآباد میں نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ سے جڑے معاملات پر بھی کھل کر اظہار خیال ہوا۔
پانچ ستمبر کو پونچھ اور میرپور ڈویژنز میں بھی بھرپور شٹرڈاؤن اور پہیہ جام ہوا جس کے بعد تینوں ڈویژنز کی عوامی ایکشن کمیٹیوں نے مظفرآباد میں 17 ستمبر کو مشترکہ اجلاس منعقد کیا جس میں پورے آزاد کشمیر سے 200 سے زائد افراد نے شرکت کی۔
اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ آزاد کشمیر کے ہر ضلع میں عوامی ایکشن کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جہاں سے فی ضلع تین افراد کو مرکزی کور کمیٹی میں نامزد کیا جائے گا، جنہیں تمام فیصلے کرنے کا اختیار ہوگا۔
اس تمام عوامی اکٹھ کو جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا نام دے دیا گیا۔
بیس ستمبر کے بعد پورے آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی نے دھرنے دینے کا اعلان کر دیا۔
اٹھائیس ستمبر کو عوامی ایکشن کمیٹی نے بجلی کے بلوں کو کسی جگہ غباروں سے باندھ کر ہوا میں اڑایا، کسی جگہ نذر آتش کیا اور کسی جگہ پانی میں کشتیاں بنا کر بہا دیا۔ اس تمام عمل کی انجام دہی کو سول نافرمانی سے تعبیر کیا گیا اور اس کام کے مرتکب افراد کے خلاف حکومت نے دہشت گردی کی ایف آئی آرز درج کر دیں۔
تیس ستمبر کو پورے آزاد کشمیر میں جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا اور گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ اس دوران مظفرآباد میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں شروع ہوئیں اور درجنوں افراد گرفتار کر لیے گئے۔ پونچھ اور میرپور سے بھی مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔
چار اکتوبر کو تمام گرفتار افراد کو رہا کیا گیا اور پانچ اکتوبر کو پورے آزاد کشمیر میں ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر شدید احتجاج کیا۔ اس حوالے سے سب سے بڑا جلسہ مظفرآباد میں ہوا جہاں حکومت کو بجلی کے نرخ کم کرنے اور آٹے کا بحران ختم کرنے کے لیے دس دن کی ڈیڈ لائن دی گئی۔
اس دوران حکومت آزاد کشمیر نے پاکستان میں بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ آزاد کشمیر میں نافذ کرنے سے انکار کر دیا اور ٹیرف کو جون 2023ء کے بعد منجمد کر دیا گیا۔
حالات کے رخ کو بھانپتے ہوئے حکومت نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف مذاکرات کا ہاتھ بڑھایا اور اس مقصد کے لیے 9 وزراء پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی جو عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ بیٹھ کر تفصیلی مذاکرات کرے گی۔
وزراء کے ساتھ مذاکرات کے لیے جموں وکشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے 9 افراد منتخب کیے گئے جنہوں نے 3، 8، 9، 29، 30 نومبر، 7، 10 اور 19 دسمبرکو حکومتی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کیے۔
مذاکرات کے دوران جموں وکشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے حکومتی ٹیم کے سامنے درج ذیل دس مطالبات پیش کیے۔
ایل ایس ڈی ایف کی رپورٹ کے مطابق اس دوران 20 نومبر اور 19 دسمبر کو وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری انوار الحق کے ساتھ بھی ایکشن کمیٹی کے مذاکرات ہوئے جس میں آٹے اور بجلی سے متعلق معاملات پر نہایت مفصل بحث ہوئی۔
بییس دسمبر کو کشمیر ہاؤس میں حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ فیصل ممتاز راٹھور اور میاں عبدالوحید نے جموں وکشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران شوکت نواز میر اور عمر نذیر کشمیری و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ حکومت نے ایکشن کمیٹی کے دس مطالبات میں سے نو مطالبات تسلیم کر لیے ہیں جبکہ بجلی کی پیداواری لاگت کے تعین کا معاملہ حکومت پاکستان کے ساتھ زیر بحث ہے جسے جلد حل کر لیا جائے گا۔
اس دوران پاکستان میں عبوری حکومت نے وزیر دفاع لیفٹنٹ جنرل انور احمد حیدر کی سربراہی میں ورکنگ گروپس تشکیل دئیے تاکہ بجلی سے متعلق معاملات کو یکسو کیا جاسکے، تاہم یہ معاملات تاحال تشنہ تکمیل ہیں۔
بیس دسمبر کے تحریری معاہدہ اور پریس کانفرنس کے باوجود جب معاملات جوں کے توں رہے تو جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے پانچ فروری کو ملک بھر میں شٹرڈاؤن، پہیہ جام اور مظاہروں کی کال دے دی۔
چار فروری کو ایکشن کمیٹی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان دوبارہ مذاکرات ہوئے جس میں حکومت نے سروسز کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن ایکشن کمیٹی کے سپرد کیا جس میں ایکشن کمیٹی کے نو مطالبات کو سرکاری طور پر تسلیم کرتے ہوئے 30 مارچ تک بجلی سے متعلق معاملات جلد یکسو کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔
رپورٹ کے مطابق 30 مارچ گزرنے کے بعد مطالبات پورے نہ ہونے پر جموں وکشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے راولاکوٹ اور اس کے بعد دھیرکوٹ میں ایک اجلاس طلب کیا جس میں متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ 11 مئی کو میرپور اور پونچھ ڈویژن، ضلع ہٹیاں اور ضلع نیلم سے عوام کا جم غفیر قانون ساز اسمبلی مظفرآباد کی طرف مارچ کرے گا او روہاں مطالبات تسلیم کیے جانے تک دھرنا دیا جائے گا۔