لاہور پولیس نے دو روز قبل ایک انتہائی اہم آپریشن کرتے ہوئے بین الاقوامی منشیات فروش گروہ ”جورڈن گینگ“ کے چھ کارندوں کر گرفتار کیا، اس آپریشن میں پولیس کے ہاتھ کروڑوں روپے کی اعلیٰ کوالٹی کی منشیات بھی لگی۔
کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈی آئی جی عمران کشور نے برطانوی خبر رساں ادارے ”بی بی سی“ کو اس آپریشن کے بارے میں حیران کن تفصیلات سے آگاہ کیا۔
عمران کشور نے بتایا کہ ’ہم نے اینٹی نارکوٹکس مہم کے تحت اس گینگ کو پکڑنے سے پہلے چھ گینگ پکڑے تھے۔ ان میں کاشف گینگ، مقصود گینگ، بوبی گینگ شامل تھے جن میں پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکی بھی شامل تھے۔ جیسا کہ ہم نے چھ نائجیرین شہری بھی پکڑے جو باہر سے کوکین پاکستان تک لاتے تھے، جسے یہاں فروخت کیا جاتا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ تمام گینگز ’زیادہ تر مقامی سطح پر کام کر رہے تھے۔ تاہم جورڈن گینگ ان سب سے مختلف تھا۔ یہ گینگ مقامی سطح پر کام کرنے کے علاوہ مختلف ملکوں میں بھی آپریٹ کر رہا تھا۔‘
ڈی آئی جی عمران کشور کا کہنا تھا کہ جب بھہی ہم منشیات کے حوالے سے کوئی معلامات پاتے تو اس میں جورڈن کا نام سامنے آتا، لیکن ہمارے پاس ”جورڈن“ نام کے سوا کوئی معلومات نہیں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ گینگ گذشتہ 12 سال سے انتہائی ہوشیاری اور منظم انداز میں کام کر رہا تھا۔ ان لوگوں کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ بھی نہیں تھا، یہ لوگ آن لائن کام کرتے تھے اور ان کے زیادہ تر خریدار لاہور کی ایلیٹ سوسائٹی کے بچے، خواتین اور مرد حضرات تھے جن کو پیسوں کے مسائل نہیں ہیں اور وہ باآسانی انہیں آن لائن پیسے ٹراسفر کر کے نشے کے لیے مال خریدتے تھے۔
عمران کشور نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ گینگ صرف لاہور شہر میں ایک دن میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے کی لاگت کا نشہ آور مواد فروخت کر رہا تھا، یہ نشہ آور مواد لاہور کے اسکولوں، کالجز، یونیورسیٹوں اور پوش علاقوں میں بھی فروخت کیا جاتا تھا اور اس کام میں مختلف ڈیلیوری کمپنیوں کو استعمال جعلی شناختی کارڈ اور پتے کے زریعے کیا جاتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جورڈن گینگ کے لوگ مختلف چیزوں میں جیسے چاکلیٹ، ویپس اور جیلی وغیرہ میں منشیات ملا کر بھی بیچ رہے تھے، یہ گینگ ہر قسم کا نشہ فروخت کر رہا تھا جس میں آئس، کوکین، ویڈ، بھنگ، چرس، ایچ ٹی سی پلز اور نئی اقسام کے سارے نشے شامل تھے۔
سی سی پی او لاہور بلال کمیانہ نے بھی اس حوالے سے بی بی سی گفتگو کی اور بتایا کہ اس گینگ کے کارندوں کو پکڑنے کے لیے پولیس نے پہلے اپنے لوگ ان کے پیچھے لگائے اور انہیں کہا کہ ہم آپ سے مال خریدنا چاہتے ہیں۔ اس کام کے لیے ہم نے مقامی سطح پر 15 لاکھ روپے کا مال ان سے خریدا جس سے ان کے فون نمبرز اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات ملنا شروع ہوگئیں۔
بلال کمیانہ کے مطابق ہم نے سی سی ٹی وی کے ذریعے دیکھا کہ ان کا مال کوریئر کمپنی میں کون بُک کروانے آیا ہے۔ ہم نے ان لوگوں کو ڈھونڈ کر ان کا پیچھا کیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جب ہمارے لوگ ان کے مستقل گاہک بن گئے تو ہم نے ان سے انٹرنیشنل سطح پر خریداری کی بات کی۔ یوں ہمیں ہمیں پتا چلا کہ جورڈن گینگ پاکستان کے علاوہ تھائی لینڈ، کینیڈا، دبئی، ویتنام، میکسیکو اور امریکا جیسے ممالک میں بھی آُریٹ کرتا ہے اور وہاں سے مال پاکستان بھی لایا جاتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح پولیس نے انٹرنیشنل اکاؤنٹس کی معلومات کے ذریعے تحقیقات کا دائرہ کار بڑھایا تو لاہور میں اس گینگ کے اڈے کا پتا چل گیا، لاہور میں ڈی ایچ اے فیز 6 کے تین گھر ایک ساتھ تھے جن پر ہمیں شک تھا۔ ہم نے وہاں اپنے بندے پہرے پر بٹھا دیے۔
بلال کمیانہ کے مطابق ہم فیصلہ کیا کہ تینوں گھروں پر ایک ساتھ کریک ڈاؤن کریں گے تاکہ اصل ملزمان فرار نہ ہو سکیں۔ جب ہم نے ان گھروں پر چھاپہ مارا تو وقت مذکورہ گھر میں نو گارڈز تھے۔ گیراج میں بڑی بڑی گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں۔ ان گھروں سے بڑے پیمانے پر منشیات برآمد ہوئیں جس کی مالیت 25 کروڑ روپے سے زیادہ تھی۔
پولیس حکام کے مطابق جورڈن گینگ سے تعلق کے الزام پر چھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے کچھ لوگ ایک ہی خاندان کے فرد ہیں۔
لاہور پولیس کے حکام کا ماننا ہے کہ مذکورہ جورڈن گینگ چلانے والے مفرور ملزم اس وقت تھائی لینڈ میں مقیم ہیں جو آخری بار اگست 2023 میں پاکستان آئے تھے۔ ان ملزمان کی گرفتاری کے لیے تھائی لینڈ کی حکومت سے رابطہ کیا جارہا ہے۔