اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر درخواست پر پراسیکیوٹر کے دلائل پر کہا کہ انٹرنیٹ پر لیکڈ آڈیوز کو میں درست نہیں مانتا، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آج کل ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے میری اور آپ کی آواز بھی بنائی جاسکتی ہے، سابق چیف جسٹس کی آڈیو لیک ہوئی جو بعد میں غلط نکلی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس حسن اورنگزیب نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔
بانی پی ٹی آئی کے وکلا سلمان صفدر، خالد یوسف چودھری اور دیگر جبکہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔
ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے الیکٹرانک شواہد سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سمیت 4 لوگوں کی لیکڈ آڈیوز انٹرنیٹ پر موجود ہیں، لیکڈ آڈیو میں کہا گیا کہ سائفر سے کھیلتے ہیں۔
کیا وکیل کی عدم موجودگی میں ملزم کے دفاع کے بیان کی اہمیت کم ہو جائے گی؟ اسلام آباد ہائیکورٹ
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے سوال کیا کہ لیکڈ آڈیو کو انٹرنیٹ پر کس نے پوسٹ کیا؟ کیا آپ انٹرنیٹ پر آنے والی ہر چیز کو درست مان لیتے ہیں؟ میں تو ایسا نہیں کرتا، انٹرنیٹ پر جھوٹ ہے جب تک کسی چیز کے درست ہونے کی تصدیق نہ کر لی جائے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ 28 ستمبر 2022 کو اظہر نامی شخص کے تصدیق شدہ اکاؤنٹ سے یہ آڈیوز اپلوڈ کی گئیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہا کہ کیا اس اظہر کو بلا کر پوچھا گیا؟ اس اظہر سے پوچھیں تو سہی کہ اس نے وزیراعظم آفس کی آڈیو کیسے ریکارڈ کرلی؟ اگر بَگ کر لی تو کیا وہ اسے عدالت میں پیش کرنے کی جرات بھی کرے گا؟۔
انہوں نے مزید کہا کہ اظہر نے وزیراعظم کے گھر سے وزیر خارجہ کے ساتھ گفتگو بَگ کر کے انٹرنیٹ پر لگا دی، آپ کہتے ہیں اظہر کو چھوڑ دیں لیکن جو اس نے کہا وہ بالکل درست ہے، ایف آئی اے کو اس معاملے کی جڑ تک پہنچنا چاہیئے جو ایک وزیراعظم تک پہنچ گیا، سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ججمنٹ میں ہے کہ کسی کی آڈیو ریکارڈنگ نہیں کی جاسکتی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے آج کل ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے میری اور آپ کی آواز بھی بنائی جاسکتی ہے، سابق چیف جسٹس کی آڈیو لیک ہوئی اور بعد میں تحقیق سے غلط نکلی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے سوال اٹھایا کیا آپ انٹرنیٹ پر آنے والی ہر چیز کو درست مان لیتے ہیں؟آپ نے انٹرنیٹ پر آنے والی چیز پر دس،دس سال سزا دے دی۔
سائفر کی کاپی واپس کیوں نہیں کی گئی؟ کیا وزیر اعظم کو کاپی دینے کے ثبوت موجود ہیں؟ عدالت
پروسیکیوٹر نے کہا کہ یہ ہماری واحد شہادت نہیں ہے اس کے علاوہ اور بھی ہیں اور بتایا کہ پی ٹی وی کے کیمرہ مین نے بیان دیا کہ اس نے 27 مارچ کے جلسے میں بانی پی ٹی آئی کی تقریر ریکارڈ کی اور ایف آئی اے کو اس ریکارڈنگ کی سی ڈی فراہم کی، سی ڈی میں تقریر اور اس کا ٹرانسکرپٹ موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیمرہ مین نے بیان دیا کہ اس نے بانی پی ٹی آئی کو کاغذ لہراتے دیکھا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے طنزیہ سوال کیا کہ یہ تو آپ کا اسٹار گواہ ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کیمرہ مین یہ کیسے کہہ سکتا ہے وہ تو صرف یہ بتا سکتا ہے کہ ریکارڈنگ اس نے ہی کی تھی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے ایف آئی اے اب اعظم خان کے بجائے کیمرہ مین کے بیان پر انحصار کر رہی ہے، کیا پراسیکیوشن کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں کہ اعظم خان کا بیان تسلیم نہیں کیا جائے گا، اعظم خان کا بیان ضائع ہونے کا سوچ کر کیمرہ مین کے بیان پر انحصار کر رہے ہیں۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ دفتر خارجہ کی ترجمان کی سائفر سے متعلق بریفنگ کا ٹرانسکرپٹ بھی موجود ہے، ہماری اگلی گواہ دفتر خارجہ کی ڈائریکٹر اقرا اشرف ہیں۔
سائفر کیس: عمران خان، شاہ محمود کی سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت 8 مئی تک ملتوی
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا اقرا اشرف نے اپنے بیان میں لکھا کہ یہ میرا حتمی بیان نہیں، لڑکی نے ایمانداری دکھائی کہ ایف آئی اے نے مجھ سے جلدبازی میں بیان لیا ہے، کیا آپ اقرا اشرف کے غیرحتمی بیان پر انحصار کر سکتے ہیں، آپ نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ایک نامکمل ڈاکومنٹ لے لیا۔
پراسیکیوٹر نے جواب دیا غیرحتمی کا یہ مطلب نہیں کہ جلدی میں بیان دے دیا بلکہ یہ ہے کہ مزید کوئی چیز شامل کی جا سکتی ہے۔
جسٹس میاں گل حسن پھر بولے میں تو ایک غیرحتمی بیان پر انحصار نہیں کر سکتا، آپ کر سکتے ہیں۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ میرا صرف اس شہادت پر انحصار نہیں مزید بھی شواہد موجود ہیں، آئندہ سماعت پر دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا جس کے بعد سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔