آئی ایم ایف نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں مشکل سے حاصل کردہ استحکام سے فائدہ اٹھائے، مضبوط، جامع اور پائیدار ترقی پیدا کرنے کے لئے مضبوط میکرو اکنامک پالیسیوں اور ساختی اصلاحات لائی جائیں اور سگریٹ جیسی غیر ضروری اشیاء پر ٹیکس کو بین الاقوامی معیار کے برابر لایا جائے۔
یہ بات اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک کیپٹل کالنگ نے آئی ایم ایف کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر اور چیئر انٹونیٹ سیح کی آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس کے بعد گفتگو کے حوالے سے کہی ہے۔
تھنک ٹینک کیپٹل کالنگ نے کہا ہے کہ یہ حوصلہ افزا ہے کہ ملک 828 ملین ایس ڈی آر (تقریبا 1.1 ارب ڈالر) کی فوری تقسیم حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے، جس سے اس معاہدے کے تحت مجموعی تقسیم 2.250 بلین ایس ڈی آر (تقریبا 3 ارب ڈالر) ہوگئی ہے۔
تاہم، اس نے نشاندہی کی کہ ملٹی نیشنل سگریٹ کمپنیاں ملک کو حاصل کردہ اس ”مشکل سے حاصل کردہ استحکام“ سے ناخوش ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سگریٹ جیسی غیر ضروری اشیاء پر ٹیکس کو بین الاقوامی معیار کے برابر لایا جائے۔ جہاں تک سگریٹ کا تعلق ہے تو ہم خطے میں سب سی سستی سگریٹ فروخت کر رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے سگریٹ پر ٹیکس عائد کرنے کے لیے طے کیے گئے پیرامیٹرز میں ان مصنوعات کی وجہ سے معاشرے میں اموات اور بیماریوں کے حجم کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 24 ملین سے زائد پاکستانی فعال تمباکو نوشی کرتے ہیں جو غیر فعال افراد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ ملک سگریٹ کی پیداوار کے لئے ایک پناہ گاہ بن گیا ہے کیونکہ اس کا شمار ان 9 غریب ریاستوں میں ہوتا ہے جو دنیا بھر میں سگریٹ کی پیداوار کا 90 فیصد حصہ رکھتے ہیں۔
پاکستان تمباکو کے شعبے کے لئے پناہ گاہ بن گیا ہے کیونکہ پاکستان میں ریگولیٹرز پر ایم این سی کو بے پناہ طاقت حاصل ہے۔
صرف ہیرا پھیری سے ہی گزشتہ سات سالوں میں 567 ارب روپے کے تخمینے کے مطابق نقصان پہنچایا جاچکا ہے۔ یہ اعداد و شمار حال ہی میں کیے گئے ایک مطالعہ ایس ڈی پی آئی سے سامنے آئے ہیں۔
تھنک ٹینک نے ایک سرکاری ادارے پی آئی ڈی ای کی ایک تحقیقی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جب حکومت نے 2019 میں تیسرے درجے کے ٹیکس کو ختم کیا تھا تو تمباکو کی صنعت کی جانب سے ٹیکسوں سے بچ کر سستے سگریٹ فروخت کرنے کی صلاحیت کے باعث اس صنعت کا ٹیکس کنٹری بیوشن 2016 کے 92 ارب روپے کے مقابلے میں بڑھ کر 120 ارب پاکستانی روپے (روپے) تک پہنچ گیا تھا۔
اس سے مجموعی ٹیکس وصولی میں تمباکو کی صنعت کا حصہ مالی سال 16 میں 2.15 فیصد سے بڑھ کر 3 فیصد ہو گیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے تمباکو ٹیکس پالیسی کو تبدیل کرنے میں ہچکچاہٹ کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ صحت اور سماجی اخراجات میں تمباکو نوشی کی وجہ سے ہونے والے حصے (ایس اے ایف) کو مکمل طور پر سمجھنے میں ناکام رہی ہے۔
اس سے ٹیکس محصولات کا فائدہ لاگت کا تجزیہ ناقص ہوجاتا ہے اور صحت کے نتائج پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔
لہذا کیپٹل کالنگ نے غیر ضروری اشیاء کی اس صنعت پر ٹیکس عائد کرتے وقت سگریٹ کی صحت کی لاگت کو مدنظر رکھنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یہ اپنی ”محنت سے حاصل کردہ استحکام“ سے محروم نہ ہو۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ کئی ضروری اقدامات میں سے ایک ہے۔