سپریم کورٹ کے جج جسٹس شاہد وحید اور جسٹس عائشہ ملک کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پراضافی جاری ہوگئے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کیس میں لکھے گئے اضافی نوٹ میں جسٹس شاہد وحید نے لکھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین سے متصادم ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون فراہمی انصاف میں کتنی بڑی رکاوٹ بنے گا، پارلیمان کو آئین سے متصادم قوانین بنانے کا اختیار نہیں ہے۔
جسٹس شاہد وحید نے ججز کمیٹی کے طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ عدالت کے انتظامی امور پر پارلیمان کو مداخلت کی اجازت دینا اختیارات کی آئینی تقسیم کیخلاف ہے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 10-5 سے آئینی قرار، سپریم کورٹ نے تمام درخواستیں مسترد کردیں
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں جسٹس شاہد وحید نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ قانون کی حکمرانی کیلئے نظام انصاف ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، قانون کی حکمرانی کیلئے ضروری ہے کہ عدلیہ کو آزادی سے بغیر کسی مداخلت کام کرنے دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین سے متصادم ہے، عدالت کے انتظامی امور پر پارلیمان کو مداخلت کی اجازت دینا اختیارات کی آئینی تقسیم کیخلاف ہے، حکومت اگر مخصوص مقدمات میں مرضی کے بنچز بنائے تو یہ عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہوگا۔
سپریم کورٹ کے جج نے اپنے نوٹ میں کہا کہ آرٹیل 191 کا سہارا لینے کی اجازت ملی تو عدالتی معاملات میں بذریعہ آرڈیننس بھی مداخلت ہوسکے گی، عدالتی دائرہ اختیار میں اضافہ صرف آئینی ترمیم کے ذریعے ہی ممکن ہے، ججز کمیٹی اپنے رولز پریکٹس اینڈ پروسیجر کے مطابق ہی بنا سکے گی۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس: ’اس ملک کو چلنے دیں، اتنا تو کہیں قانون ٹھیک بنا ہے‘
جسٹس شاہد وحید نے لکھا کہ ججز کی تین رکنی کمیٹی پریکٹس اینڈ پروسیجر میں موجود خامیوں کو رولز بنا کر درست نہیں کر سکتی، اگر ججز کمیٹی کا کوئی رکن دستیاب نہ ہو تو اسکی جگہ کون لے گا؟ اس بارے میں قانون خاموش ہے۔
انہوں نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا کہ اگر کمیٹی کے دو ارکان چیف جسٹس کو صوبائی رجسٹری بھیجنے کا فیصلہ کریں تو کیا ہوگا؟ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے انتظامی سربراہ ہوتے ہیں انہیں دوسرے صوبے بھیجنے کے نتائج سنگین ہونگے۔
جسٹس شاہد وحید نے لکھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیسیکشن تین کے مطابق 184/3 کی بنیادی حقوق کا کیس تین رکنی بنچ سن سکتا ہے جبکہ سیکشن چار کے مطابق بنیادی حقوق کے معاملے کی تشریح پانچ رکنی بنچ ہی کر سکتا ہے۔۔ان دونوں سیکشنز میں تضاد ہے، سیکشن تین سماعت اور آئینی تشریح کی اجازت دیتا ہے جبکہ سیکشن چار پابندی لگاتا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک کااختلافی نوٹ جاری ہوگیا
جسٹس عائشہ ملک نے روسکوئے پائونڈ کے 1926کے جملے سے اپنے فیصلے کا آغاز کیا۔ انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ روسکوئے پائونڈ نےکہا تھا اگرہم چاہتے ہیں عدلیہ کچھ کرے توآزادی بھی دینا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ سادہ قانون سازی کے ذریعے اپیل کا حق نہیں دیا جا سکتا، آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق دینے کیلئے آئینی ترمیم ضروری ہے، آرٹیکل191کےتحت آئین سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار دیتا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ پریکٹس اینڈپروسیجرقانون سپریم کورٹ کے آئینی اختیارکوختم نہیں کرسکتا، سپریم کورٹ رولزمیں ترمیم فل کورٹ ہی کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فل کورٹ بنچ تشکیل کی صورت میں اپیل کا حق غیرموثرہوجائے گا، فل کورٹ کی تشکیل سے کسی فریق کا اپیل کا حق ختم نہیں کیا جا سکتا، فل کورٹ کی تشکیل سے 184/3 میں اپیل کا حق دینے کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔