انگلینڈ کی ریکلیم پارٹی کے لیڈر لارنس (لوزا) فاکس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ کے ذریعے اس بات کا رونا رویا ہے کہ انگلینڈ سمیت برطانیہ کے طول و عرض میں مسلمانوں کی تعداد مجموعی آبادی کے تناسب سے جتنی ہے اُس کے مقابلے میں سیاسی اثرات کہیں زیادہ ہیں۔
’اسکریپ دی میئر“ کے زیرعنوان لارنس فاکس نے لکھا ہے کہ برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اُس سے کہیں زیادہ رفتار سے سیاسی اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ اِس وقت لندن، برمنگھم، لیڈز، بلیک برن، شیفیلڈ، آکسفرڈ، لیوٹن، اولڈہیم اور راچڈیل کے میئر مسلمان ہیں۔
انگلینڈ کی مجموعی آبادی 6 کروڑ 60 لاکھ ہے اور ان میں مسلمان صرف 40 لاکھ ہیں۔
آج انگلینڈ میں 3 ہزار سے زائد مساجد ہیں۔ 130 شریعہ کورٹس ہیں۔ 50 شریعہ کونسلیں ہیں۔ 78 فیصد مسلم خواتین کام نہیں کرتیں۔ وہ ریاست کی طرف سے مالی امداد حاسل کرتی ہیں۔ انہیں مفت رہائش بھی میسر ہے۔
مجموعی طور پر 63 فیصد مسلمان کام نہیں کرتے۔ انہیں حکومت کی طرف سے رہائش اور مالی امداد بھی ملتی ہے۔
مسلم گھرانے اوسطاً 6 سے 8 بچوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آج برطانیہ میں کم و بیش ہر اسکول کے لیے اسلام سے متعلق درس دینا لازم ہوچکا ہے۔
لارنس فاکس نے سوال کیا ہے کہ کیا یہ سب کچھ جمہوری طریقے سے ہوا ہے؟ کیا کبھی لوگوں سے رائے لی گئی ہے؟