’آج سے 30 برس قبل جب ہم نے یہاں گھر بنایا تو دریا یہاں سے کافی دور تھا، ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سیلابی پانی ہمارے گھروں تک پہنچ جائے گا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور خصوصی طور پر سال 2010 میں تباہ کن سیلاب کے بعد دریامیں پانی کا بہاؤ زیادہ ہونے لگا اور زمینی کٹاؤ بڑھنے کے باعث دریا ہمارے گھروں کی دہلیز پر آپہنچا جس سے ہمیں کافی نقصان اٹھانا پڑا‘۔
یہ کہنا ہے خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کے 60 سالہ رہائشی ممتاز خان کا، جن کا مکان حالیہ تیز بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب میں بہہ گیا، اور یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ سیلابی پانی نے ان سے چھت چھین لی ہو، اس سے قبل چار مرتبہ وہ سیلاب میں گھر سے محروم ہوچکے ہیں۔
ممتاز خان اپنے بہہ جانے والے گھر کے صحن میں کھڑے ہوکر ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انہوں نے انتہائی غربت میں اپنے بچوں کے لئے تین کمروں پر مشتمل گھر بنایا تھا لیکن سیلاب کی بے رحم موجوں نے ناصرف تین کمرے بلکہ گھر میں موجود سامان دریا برد کردیا اور اب وہ بے یار و مددگار کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ آخر کیوں اسی جگہ پر دوبارہ گھر تعمیر کیا گیا جہاں پہلے ہی سیلاب اسے بہا لے گیا تھا؟ ممتاز خان نے کہا کہ دریا کے کنارے زیادہ تر وہ لوگ آباد ہیں جن کے شہروں اور بڑے گاؤں میں اپنی زمینیں نہیں ہوتیں، اس لئے وہ یہاں مناسب قیمت پر زمین خرید کر اس پر گھر بنالیتے ہیں، تاہم سیلاب آنے کے بعد یہاں کسی بھی چیز کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا، جس سے درجنوں خاندان بے گھر ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے بچوں اور خواتین سمیت کھلے آسمان کے نیچے رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور جب دریاؤں میں بہاؤ کم ہوجاتا ہے تو یہ لوگ دوبارہ سر چھپانے کے لئے تعمیرات شروع کردیتے ہیں۔
ان کے بقول وہ مرغیاں اور جانور پال کر انہیں بیچتے ہیں اور اسی سے اپنی روزمرہ ضروریات پوری کرتے ہیں، مسلسل گھر بنانے کے باعث انہوں نے اپنی بیوی کے سارے زیوارت تک بیچ دیے ہیں اس لئے وہ فکر مند ہیں کہ اس لاچاری کے حال میں وہ کیسے گھر تعمیر کریں گے۔
انہوں نے خیبر پختونخوا حکومت اور متعلقہ محکموں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس مشکل کی گھڑی میں ان کیلئے خوراک، پانی، ادویات اور رہنے کے لئے محفوظ مقامات کا انتظام کریں۔
خیبرپختونخوا میں اپریل کے دوران تیز بارشوں اور بالائی علاقوں میں برف باری کا سلسلہ گزرا ہے جس کے باعث دریائے سوات سمیت دریائے کابل میں پانی کا بہاؤ زیادہ ہونے سے ضلع چارسدہ اور نوشہرہ کے بیشتر علاقے سیلابی صورتحال سے دوچار ہوگئے۔
خیبرپختونخوا میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں حالیہ بارشوں کے نتیجے میں تین ہزار سے زیادہ مکانات کو جزوی اور مکمل طور پر نقصان پہنچا ہے۔
پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل محمد قیصر خان کے مطابق اب تک صوبے میں شدید بارشوں کے باعث گھروں کے منہدم ہونے اور برساتی نالوں میں طغیانی کے نتیجے میں 35 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔
ادھر پی ڈی ایم اے کے ترجمان انوار شہزاد نے بتایا کہ سوات کی تحصیل مٹہ، پشاور سے ملحقہ قبائلی ضلع خیبر کے علاقے ذخہ خیل اور افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع باجوڑ بارش کے باعث شدید متاثر ہوئے ہیں۔
ان واقعات کے بعد وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے بارشوں اور برف باری کے نتیجے میں ہونے والے حادثات سے متاثرہ افراد کو معاوضہ دینے اور ضروری سہولیات فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سرکاری طور پر جاری کردہ بیان کے مطابق وزیر اعلیٰ نے ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے لیے فی کس 10 لاکھ روپے، شدید زخمیوں کو تین لاکھ اور معمولی زخمی ہونے والے افراد کو پچاس ہزار روپے فوری طور پر دینے کی ہدایت کی ہے۔
بیان کے مطابق وزیراعلیٰ کی ہدایت پر پی ڈی ایم اے مختلف علاقوں کے متاثرین میں امدادی سامان تقسیم کر رہا ہے۔
جامعہ پشاور میں شعبہ ماحولیات کے پروفیسر ڈاکٹر محمد نفیس کے مطابق کسی ایک علاقے کی آب و ہوا اس کے کئی سالوں کا اوسط ہوتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اس اوسط میں تبدیلی کو کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ زمین اب بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور سے گزرہی ہے اور عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی ہمارے طرز زندگی کو بدل دے گی، جس سے پانی کی قلت پیدا ہو گی اور خوراک پیدا کرنا مشکل ہو جائے گی۔
ان کے بقول کچھ خطے خطرناک حد تک گرم ہو سکتے ہیں اور دیگر سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ موسم میں شدت کی وجہ سے پیش آنے والے واقعات جیسے گرمی کی لہر بارشیں اور طوفان بار بار آئیں گے اور ان کی شدت میں اضافہ ہوجائے گا، یہ لوگوں کی زندگیوں اور ذریعہ معاش کے لیے خطرہ ہوگا جبکہ ایسی صورتحال میں غریب ممالک کے شہریوں کے پاس حالات کے مطابق ڈھلنے کا امکان کم ہوتا ہے اس لیے وہ سب سے ذیادہ نقصان اٹھائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ جنگلات کو آگ لگانے سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے جنگلی حیاتیات پر بھی اثر پڑ رہا ہے، جس سے بہت سے جنگلی جانوروں کی تعداد میں کم ہو رہی ہے اور کافی حد تک جنگلی جانوروں کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی کا باعث بن رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنگلات کی کمی سیلاب کا باعث بنتی ہے کیونکہ درخت زمین پر کیل کی مانند ہیں۔ پاکستان خطے میں کم جنگلات والے ممالک میں شامل ہے جس کا صرف 4 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے۔ اوزون لیئر فضائی آلودگی کی وجہ سے سب سے ذیادہ متاثر ہو رہی ہے جو کہ زمین پر انسانی زندگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
ڈاکٹر محمد نفیس نے بتایا کہ تمام موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے اور سب کو بچانے کے لیے ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنا اپنا کر دار ادا کریں۔ شجرکاری مہم میں جتنا ہو سکے حصہ ڈالیں اور اپنے طور پر بھی ذیادہ سے ذیادہ درخت لگائیں، اپنے ماحول کو صاف رکھیں اور ایسے ذرائع کا استعمال کریں جو فضائی آلودگی کو کم کرے اور آنے والی نسلوں کو موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے بچا سکے۔