شہزادے اور شہزادیوں کا نام سنتے ہی ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ شاید ان کی زندگی میں تکالیف ، مشکلات جیسے الفاظ ہوتے ہی نہیں۔ تاہم عرب کی شہزادیوں کی زندگی کچھ منفرد اور مختلف ہے۔
مردانہ سرپرستی والے معاشرے میں جہاں عرب شہزادیوں کو کئی لحاظ سے آزادی دی جا رہی ہے کچھ ایسی بھی ہیں جو کہ شدید مشکلات کا شکار رہی ہیں۔
عالمی جریدے فارن پالیسی کی جانب سب عرب شہزادی شیخا لطیفہ کے حوالے سے آرٹیکل میں انکشاف کیا گیا تھا کہ فروری 2018 میں دبئی کی شہزادی ابائی ملک سے فرار ہو کر فرانس کی ایک معروف شخصیت کی کشتی میں سوار ہو رہی تھی۔
تاہم جب اس بات کا علم ان کے والد شیخ محمد بن راشد المختوم کو ہوا تو انہوں نے فورا اپنی ٹیم کے ذریعے بیٹی کو زبردستی واپس گھر بلوا لیا۔
دوسری جانب جریدے کی جانب سے مزید انکشاف میں بتانا تھا کہ دبئی کی شہزادی کی جانب سے ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں شیخہ لطیفہ کی جانب سے اپنی جان بچانے کی درخواست کی گئی تھی ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ یا تو میں مر جاؤں گی یا بہت ہی بری صورتحال کا شکار ہو جاؤں گی۔
دوسری جانب 2022 میں اسکائی نیوز میں پبلش ہونے والی ایک نیوز کے مطابق شیخہ لطیفہ کی جانب سے کہنا تھا کہ اب وہ اپنی خواہش کے مطابق زندگی گزر بسر کر رہی ہیں جبکہ ان کی تصویر بھی وائرل ہوئی تھی۔
جس میں وہ پیرس میں موجود تھی جہاں ان کے ساتھ اقوام متحدہ کے لیے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر بھی موجود تھے۔
دوسری جانب سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی ایک شہزادی ایسی بھی تھی جنہیں سزائے موت دی گئی تھی۔
شہزادی مشعال بنت فہد ال سعود کا تعلق سعودی عرب کے شاہی خاندان سے تھا تاہم شہزادی 20 سالہ نوجوان خالد ملحلل نامی نوجوان سے محبت کر بیٹھی تھی۔
کیونکہ سعودی معاشرے میں بغیر نکاح کے نوجوان مرد اور عورت کا ملنا جرمز جرم ہے یہی وجہ تھی کہ سعودی شہزادی اور نوجوان خالد ایڈلٹری کے الزام میں سزا کے مرتکب ہوئے تھے۔
دوسری جانب شہزادی کی جانب سے بیز بدل کر جدہ ایئرپورٹ کے ذریعے نوجوان خالد کے ہمراہ فرار ہونے کی کوشش بھی کی گئی کامیاب نہ ہو پائی۔
اگرچہ شہزادی کے گھر والوں نے مشال کو اقبال جرم سے منع کیا اور اس بات پر امادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ دوبارہ اس نوجوان سے نہیں ملے گی تاہم شہزادی نے اس بات کو مسترد کرتے ہوئے اقبال جرم کر لیا اس کے بعد سعودی حکومت کی جانب سے شہزادی کو سزا موت دی گئی۔
جہاں شہزادیوں کے ساتھ ظلم و جبر کی داستاں رقم ہو رہی ہے وہیں کچھ شہزادیاں ایسی بھی ہیں جو کہ دنیا بھر میں اپنی توجہ منفرد انداز سے حاصل کر رہی ہیں۔
شہزادی نورہ بنت فیصل کا تعلق بھی آل سعود شاہی خاندان سے ہے جو کہ فیشن کی دنیا بھی خوب توجہ حاصل کر رہی ہیں۔
زمانے کے حساب سے عرب معاشرے میں خواتین اب اپنا ٹیلنٹ دنیا بھر میں دکھا پا رہی ہیں۔ جبکہ سعودی عرب کی تاریخ کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے 2018 میں پہلی مرتبہ سعودی فیشن ویک کی شروعات کی۔
لیکن فیشن کی بانی سمجھی جانے والی سعودی شہزادی 2022 میں پراسرار طور پر انتقال کر گئی تھیں۔
جبکہ سعودی شہزادی ریما بھی 2020 کافی مقبول ہو چکی ہیں۔ شہزادی ریما کو اقوام متحدہ میں سعودی عرب کی پہلی سفیر منتخب کیا گیا تھا جبکہ سعودی شہزادی سعودی عرب کے ویژن 2023 کے حوالے سے بھی کافی مداخرک ہیں۔
جبکہ کھیلوں کی دنیا میں بھی سعودی شہزادی خوب بار چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں وہ عالمی اولمپک کمیٹی 2018 میں بھی شامل رہیں جبکہ سعودی عربیہ اولمپک کمیٹی 2017 کا بھی حصہ رہیں۔
دوسری جانب سعودی شہزادی عادلہ بنت عبداللہ السعود صحت کے حوالے سے سعودی عرب میں مشہور ہیں، وہ نیشنل چیرٹیبل فاؤنڈیشن برائے ہیلتھ کیئر کی صدر منتخب ہوئی ہیں۔
جبکہ وہ کینسر کے حوالے سے بچوں کے ادارے سناد چیریٹیبل سوسائٹی کی فاؤنڈنگ ممبر بھی ہیں سماجی کاموں کے حوالے سے سعودی شہزادی خوب توجہ حاصل کر رہی ہیں۔