برطانیہ کے بلدیاتی انتخابات میں حکمراں کنزرویٹیو پارٹی کی شکست کو بھارتی نژاد وزیرِاعظم رشی سوناک کے لیے بہت بڑے خطرے کی شکل میں دیکھا جارہا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رشی سوناک کی کرسی ہل رہی ہے۔
جمعہ کے انتخابات میں کنزرویٹیو پارٹی کو غیر معمولی دھچکا لگا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس بات کا امکان پیدا ہوچلا ہے کہ لیبر پارٹی 14 سال بعد ایک بار پھر اقتدار میں آئے گی۔ برطانیہ میں عام انتخابات چند ماہ بعد ہوں گے۔
اپوزیشن کی لیبر پارٹی اور دیگر جماعتوں کو حکمراں جماعت سے زیادہ نشستیں ملی ہیں۔ لیبر پارٹی نے انگلینڈ میں ایسی کونسلیں بھی جیتی ہیں جہاں وہ عشروں سے کامیاب نہیں ہو پائی تھی۔
وزیرِاعظم رشی سوناک کے لیے یہ صورتِ حال بہت پریشان کن ہے۔ لیبر پارٹی نے خصوصی انتخاب میں ایک پارلیمانی نشست بھی جیتی ہے جس کے نتیجے میں عام انتخابات کے لیے اس کی پوزیشن مزید مستحکم ہوگئی ہے۔
ٹرن آؤٹ کم رہا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج مجموعی طور پر رشی سوناک کے لیے انتہائی پریشان کن ہیں۔ شمالی مشرقی انگلینڈ میں ٹیز ویلی کے کنزرویٹیو میئر کے انتخاب نے رشی سوناک کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کیا ہے۔
بین ہاؤچن کی فتح کنزرویٹیو پارٹی کے چند قانون سازوں کی طرف سے کی جانے والی بغاوت کا سامنا کرنے میں رشی سوناک کی معاونت کرسکتی ہے۔ بین باؤچن کی کامیابی اُن کی ذاتی محنت اور کوشش کا نتیجہ تھی۔
لیبر پارٹی کے سربراہ کیئر اسٹارمر کے لیے نتائج مجموعی طور پر حوصلہ افزا رہے ہیں۔ اسرائیل نواز موقف کے باعث لیبر پارٹی کو شمال مغربی انگلینڈ میں بلیک برن اور الڈہیم جیسے مسلمانوں کی بڑی آبادی والے علاقوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
لیبر پارٹی نے شمال مغربی انگلینڈ میں بلکیک پُول ساؤتھ کی پارلیمانی نشست جیت کر اپنے لیے عام انتخابات میں بہتر امکانات کی راہ موار کی ہے۔