Aaj Logo

شائع 03 مئ 2024 04:48pm

’سالگرہ پر ماتم تھا‘: لاپتہ کامران کون ہے اور پی ٹی آئی قیادت ’خاموش‘ کیوں؟

پشاور میں پی ٹی آئی کے کارکن کامران خان کے لاپتہ ہوئے تین روز ہوگئے لیکن تاحال کوئی سراغ نہ مل سکا۔ سوشل میڈیا پر پارٹی کارکن قیادت کی ’خاموشی‘ پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا کی گفتگو کو دیکھا جائے تو اس معاملے پر پی ٹی آئی رہنماؤں کو کارکنوں کے غصے کا سامنا ہے اور مزید غصے کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

کامران کی اہلیہ کی جانب سے پشاور کے تھانہ فقیرآباد میں دفعہ 365 پی پی سی کے تحت درج ایف آئی آر کے مطابق 30 مارچ کو جب کامران کام سے واپس گھر آرہے تھے تو شام 4 بجکر 55 منٹ پر کامران نے آخری بار کال کی اور اس کے بعد کامران کا فون بند ہوگیا جس کے بعد معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ کامران کو ’نامعلوم افراد‘ نے اغواء کیا۔

کامران کی گمشدگی کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے کامران کی بازیابی کے لیے آواز اٹھانا شروع کیا تو ایسے میں خیبرپختونخوا حکومت کو بھی طعنے دینے لگے کہ اپنے ہی دور حکومت میں بھی پی ٹی آئی کارکن محفوظ نہیں اور جبری گمشدگی کا سلسلہ جاری ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والی پی ٹی آئی رہنماء و ممبر قومی اسمبلی شاندانہ گلزار نے سوشل میڈیا پر پیغام جاری کیا کہ پی ٹی آئی کے وفادار محمد کامران کو عید گاہ چارسدہ روڈ سے شام 5:13 پر ایک کالی پراڈو نے اٹھایا اور شام 5:33 بجے وہ قلعہ بالاحصار کے قریب تھا جس کے بعد فون بند ہوگیا۔

مبینہ واقعے کے اگلے روز آج نیوز کی طرف سے پوچھے گئے سوال پر وزیر اعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے جواب دیا کہ کامران کے کیس کو وہ خود فالو کررہے ہیں اور کوئی مسئلہ نہیں ہے کامران جلد گھر واپس آجائے گا۔

اسلام آباد میں پی ٹی آئی ترجمان رؤف حسن کی پریس کانفرنس میں بھی اس معاملے پر سوال اٹھایا گیا لیکن صحافیوں کو کوئی واضح جواب نہیں ملا۔

تین روز گزرنے کے باوجود بھی کامران کا کوئی پتہ نہ چلا تو کامران کی اہلیہ فریاد لیکر پشاور ہائیکورٹ پہنچ گئی اور واقعہ کی تفصیل سے پشاورہائیکورٹ کے جسٹس عتیق شاہ کو آگاہ کیا جس پر جسٹس عتیق شاہ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت جاری کی کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ یڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل انعام یوسفزئی نے عدالت کو بتایا کہ وہ واقعہ کے حوالے سے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او سے رابطہ کرکے معلومات لیتے ہیں۔ جسٹس عتیق شاہ نے ہدایت کی کہ صرف ایس ایچ او سے نہیں بلکہ آئی جی پولیس سے بھی رابطہ کرکے مسئلہ حل کیا جائے جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو یقین دہائی کرادی۔

کامران کی اہلیہ کے ساتھ پشاور ہائیکورٹ آئے پی ٹی آئی رہنماء اور ایم این اے شیر علی ارباب نے دعویٰ کیا کہ کامران نے ایکس (ٹویٹر) پر ٹویٹ میں حالیہ دنوں ہونے والی ایک اہم تعیناتی پر سوال اٹھایا تھا۔

شیر علی ارباب کا کہنا تھا کہ کامران کی بازیابی کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں، حکومت نے اس واقعہ کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور پولیس، سی ٹی ڈی سمیت تمام خفیہ اداروں کو اپنی جگہ پر لا رہے ہیں جس میں تھوڑا وقت لگے گا۔

کامران کی اہلیہ نے آج نیوز کو بتایا کہ کامران نے کوئی جرم نہیں کیا اور بغیر کسی وجہ کامران کو اغواء کیا گیا ہے۔ کامران کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ اگر کامران پر کوئی الزام ہے بھی تو اُسکا بھی ایک طریقہ کار ہے جس کے تحت عدالتیں سزاء دے سکتی ہیں۔

کامران کی اہلیہ نے بتایا کہ گزشتہ روز کامران کی 33 واں سالگرہ تھی لیکن اغواء کاروں نے انکو برتھ ڈے پر گمشدگی کا تحفہ دیا اور یہی وجہ ہے کہ کامران کی 33 ویں سالگرہ پر گھر میں ماتم کا سماں تھا۔

کامران کی اہلیہ نے حکومت، آئی جی پولیس اور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ انکے شوہر کی بازیابی کو جلد یقینی بنایا جائے۔

لاپتہ کامران خان کون ہیں

کامران خان کی اہلیہ کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر سے ظاہر ہوتا ہے کہ کامران خان پشاور کی ایک میڈیکل لیبارٹری میں بطور ریپ Representative کام کرتے ہیں۔

ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کامران کی اہلیہ گاؤں سے آئی تھیں اور گمشدگی کے دن شام کو 4:55 پر آخری فون کال میں کامران نے اہلیہ سے کہا کہ وہ ’گھر‘ چلی جائیں۔ ایف آئی آر میں اہلیہ نے لکھوایا کہ کامران نے کہا ’آپ گھر چلی جائیں، کیونکہ میں گاؤں سے آئی تھی۔ میں آؤں گا۔‘

کامران کی ٹوئٹر کی ٹائم لائن کئی دیگر سخت گیر پی ٹی آئی کارکنوں سے مختلف نہیں۔

پی ٹی آئی کے حامی کامران کو پارٹی کا ”تگڑا“ سوشل میڈیا کارکن قرار دیتے ہیں۔

کیا پی ٹی آئی خاموش ہے

پی ٹی آئی کی جانب سے عرفان سلیم کامران کی گمشدگی کیس دیکھ رہے ہیں۔ آج نیوز کو عرفان سلیم نے بتایا کہ اگر کامران کے ٹویٹس پر کوئی اعتراض ہے تو پیکا قانون کے تحت اسکے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے لیکن جبری گمشدگی کسی صورت قابل قبول نہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزیر اعلی خود کیس کو دیکھ رہے ہیں اسلئے ایک دو روز میں کامران کی بازیابی ممکن ہو جائے گی۔

اگرچہ پارٹی کارکنوں کو اس معاملے کو نظرانداز کرنے کا شکوہ ہے تاہم پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کامران خان کی گمشدگی کی ایف آئی آر کی کاپی شیئر کرتے ہوئے یکم مئی کو کہا گیا کہ ”اس واقعے کی FIR رجسٹر ہو چکی ہے اور تحریک انصاف پشاور کی قیادت کیس کو فالو کر رہی ہے۔“

لیکن کامران خان کی اہلیہ کا ایک انٹرویو بھی وائرل ہو رہا ہے جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ ان کے شوہر کی تلاش کے لیے خیبرپختونخوا حکومت نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

کارکنوں کے اس ردعمل کے حوالے سے عرفان سلیم نے کہا کہ پارٹی کامران کی گمشدگی کے وقت سے ہی انکی فیملی کے ساتھ رابطہ میں ہے اور حکومتی سطح پر اداروں کے ساتھ رابطوں کے علاوہ قانونی جنگ میں ساتھ دے رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ورکرز مزاحمت کا راستہ اپنانے کا سوچ رہے لیکن اس وقت حکمت کا راستہ ناگزیر ہے کیونکہ کامران کی بحفاظت بازیابی لازمی ہے۔

Read Comments