اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 6 مئی تک ملتوی کردی، عدالت نے سائفر گائیڈ لائن کتابچہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل کو دینے کی ہدایت کردی، دوران سماعت عدالت نے دریافت کیا کہ کیا وکیل کی عدم موجودگی میں ملزم کے دفاع کے بیان کی اہمیت کم ہو جائے گی؟ اس نکتے پر بھی معاونت کریں کہ کیا وکیل کی عدم موجودگی میں ملزم کے دفاع کے بیان کے کوئی اثرات ہوتے ہیں؟
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ایاز شوکت بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
دوران سماعت عمران خان کے وکیل سلمان صفدر عدالت کو بتایا کہ چارج میں تھا 9 مارچ کو سابق وزیر اعظم کو سائفر دیا گیا، میں سوچ رہا تھا یہ کہیں سے مجھے سنائی دے لیکن سنائی نہیں دیا، شاہ صاحب کا دلائل کے حوالے سے آج پانچواں دن ہے، پراسیکوشن اگرکیس لمبا کھینچ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے سنبھالنا پڑا ہے۔
سائفر کی کاپی واپس کیوں نہیں کی گئی؟ کیا وزیر اعظم کو کاپی دینے کے ثبوت موجود ہیں؟ عدالت
سلمان صدر نے کہا کہ تجسس ہے کہ حامد علی شاہ کب اپنے دلائل مکمل کریں گے، جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ دلائل کے لیے ایک دن لوں گا، سلمان صفدر نے خود 14 دن وقت لیا ہے۔
پی ٹی آئی وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سرکار جتنا وقت لے رہی ہے اتنا کیس کو سنبھالنا پڑرہا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا 342 کا بیان وکلا کی غیرموجودگی میں ہوا تھا ؟ اگر ایسا ہے تو کیا اثرات ہوتے ہیں؟ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ 40 سوالات کے جواب میں آپ کو تفصیلاً لکھ کر دوں گا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اگر ملزمان کے وکیل 342 کے بیان کے وقت نہیں تھے تو اس کا اثر ہوگا یا نہیں؟ س نکتے پر تیاری کر کے آئیں اور عدالت کی معاونت کریں، کیا وکیل کی عدم موجودگی میں ملزم کے دفاع کے بیان کی اہمیت کم ہو جائے گی؟ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ اعظم خان نے بھی غیرمعمولی حالات میں بیان دیا تھا، اعظم خان نے جب بیان دیا تو ان کے ہاتھ میں قرآن پاک تھا۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ شاہ صاحب جیسے کیس چلا رہے ہیں میں ان کو استاد مان گیا ہوں۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ اعظم خان نے مقدس کتاب ہاتھ میں رکھ کر بیان دیا تھا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا وہ مقدس کتاب قرآن پاک تھی؟ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی قرآن پاک ہاتھ میں تھا اس لیے ان کے بیان کو ہلکا نہیں لیا جاسکتا۔
ایف آئی اے پراسکیوٹر حامد علی شاہ نے دلائل کا آغاز کیا اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کا بطور ملزم ٹرائل کے دوران اپنے دفاع میں ریکارڈ کرایا گیا بیان پڑھ کر سنایا۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے بانی پی ٹی آئی سے سوال پوچھا کیس کیوں بنا اور گواہوں نے شہادتیں کیوں دیں؟ اس سوال کا جواب بانی پی ٹی آئی نے دیا۔
سائفر فوجداری کیس ہے اور اس میں معمولی شک کا فائدہ بھی ملزمان کو جاسکتا ہے، عدالت
چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں دستاویز گم ہوجانے کی جو سزا ہے وہ کس دستاویز کی بات ہے؟ یا کچھ نہیں لکھا ہوا؟ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد ایف آئی اے نے انکوائری کی تھی، دستاویز گم ہونے کو قابل احتساب ہونے کے ساتھ پڑھا جائے گا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ وزیراعظم آفس میں پتہ نہیں کتنی چٹھیاں آتی ہوں گی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیبنے کہا کہ کیا قابل احتساب دستاویز کو ہم کوڈ کہہ سکتے ہیں؟
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ ہے بانی پی ٹی آئی کے پاس سائفر تھا، دستاویزات کی 4 اقسام ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ان چاروں اقسام میں سے کوئی بھی دستاویز گم ہوجائے تو کیا جرم ہوگا؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ بالکل دستاویز گم ہونے کی صورت میں مقدمہ درج ہوگا، ان کی اپیل ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں سقم پر بنیاد کرتی ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا بیرون ممالک سے آنے والے تمام دستاویزات کانفیڈنشل ہوتے ہیں؟ اگر کوئی دستاویز قابلِ احتساب نہیں اور وہ گم جائے پھر تو خیر ہے نا؟ وزیراعظم آفس میں تو روزانہ ایک ہزار چٹھیاں آتی ہوں گی، دانستہ نہیں لیکن اُن میں سے کوئی ایک آدھ مِس پلیس بھی ہو جاتی ہوگی۔
کسی کو پتہ ہی نہیں سائفر کا متن کیا ہے لیکن کہہ رہے ہیں دشمن کو فائدہ ہوگیا، اسلام آباد ہائیکورٹ
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ہم نے سائفر گائیڈ لائنز کا کتابچہ واپس کردیا ہے؟ جس پر پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ جی، آپ نے وہ واپس کر دیا ہے، اس پر جسٹس عامر فاروق بولے کہ یہ نہ ہو کہ پھر ہمارے خلاف بھی ایف آئی آر ہوجائے۔
چیف جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ جو گائیڈ لائنز ہیں ان کو ہم کیا کہیں گے؟ جس پر حامد علی شاہ نے کہا کہ اس کو سیکیورٹی آف سائفر گائڈ لائنز کہتے ہیں جو کابینہ ڈویژن نے تیار کی ہیں۔
عدالت عالیہ نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ سائف رگائیڈ لائن کتابچہ سلمان صفدر کو دے دیں۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں تو انہیں پیش کررہا ہوں لیکن انہوں نے نہیں لیا کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ان پر بھی پرچہ ہوجانا ہے، قانون کہتا ہے کہ اگرسائفرگم یا چوری ہوجاتا ہے تو وزارت خارجہ میں سینئر سیکیورٹی آفیسر اور آئی بی کو آگاہ کرنا ہوتا ہے، سائفر کی 9 کاپیوں میں سے ایک وزیراعظم ہاؤس سے کاپی واپس نہیں آئی، باقی 8 کاپیوں کو ضائع کردیا گیا۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا مجھے تو تجسس ہے کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر کب دلائل مکمل کریں گے؟۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ انہوں نے خود اپنے دلائل کے لیے 14 سماعتیں لی تھیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہا کہ آپ نے 4 سماعتیں کہی تھیں 4 تو ہو گئیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ شاہ صاحب 4 سماعتیں ہوگئی ہیں، بتائیں کہ مزید کتنا وقت چاہیئے؟ جس پر حامد علی شاہ نے جواب دیا کہ میں نے 4 سماعتیں مطلب 4 پورے دن کہا تھا۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے وزارت خارجہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہمیں یہ بتائیں کہ سائفر قابلِ احتساب دستاویز کیسے تھا؟ فرض کریں کہ سائفر گائیڈلائنز کا کتابچہ موجود نہیں ہے، اگر سائفر قابلِ احتساب دستاویز نہیں تو پھر چارج بنتا ہے؟
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کتنا وقت لیں گے؟ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ 5 گھنٹے میں اپنے دلائل مکمل کرلوں گا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میں اسی سوال کو ایک اور طرح کر کے پوچھتا ہوں، وزیراعظم کے پاس ایک دستاویز آتا ہے جوواپس کرنا ہے اگرواپس نہیں کرتے تو جرم ہے؟ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے جواب دیا کہ جی بالکل، وہ جرم ہو گا۔
بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر مزید سماعت 6 مئی تک ملتوی کردی۔
سائفر کی کاپیاں دیگر لوگوں نے واپس نہیں کیں، صرف عمران کیخلاف مقدمہ کیوں؟ اسلام آباد ہائیکورٹ
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران سائفر کیس میں ایک نیا موڑ سامنے آیا تھا جب اسلام آباد ہائیکورٹ نے مشاہدہ کیا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ خفیہ کیبلز یا سفارتی مراسلہ سابق وزیراعظم عمران خان کے قبضے میں تھا اور وہ ان کے قبضے سے غائب ہوگیا۔
اس سے قبل 22 اپریل کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ یہ فوجداری مقدمہ ہے، شک کا معمولی سا فائدہ بھی ملزمان کو ہی جائے گا۔
17 اپریل کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت 22 اپریل تک ملتوی کردی تھی، سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا تھا کہ وزارت خارجہ کی جگہ داخلہ نے کیوں شکایت درج کرائی؟
اس سے گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل بانی پی ٹی آئی سے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اعظم خان جو اسٹار گواہ ہیں، ان کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟
4 اپریل کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جو سیکشن لگائے گئے اور سزا سنائی گئی اس سے تو شاہ محمود قریشی کا تعلق ہی کوئی نہیں۔
2 اپریل کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماع ملتوی ہوگئی تھی۔
جسٹس عامر فاروق: سائفر کیس میں لگی دونوں دفعات کے تحت ایک ساتھ سزا غلط قرار
گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ جب کوڈڈ پیغام کو ڈی کوڈ کر کے کاپی بنائی جائے تو وہ بھی سائفر ہی رہے گا؟
اس سے قبل ہونے والی سماعت میں بھی سلمان صفدر نے بتایا تھا کہ سائفر کی کہانی عدم اعتماد کے بعد شروع ہوئی تھی۔
28 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 2 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا سائفر کو ڈی کوڈ نہیں کیا گیا؟
20 مارچ کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کی خلاف اپیلوں پرچیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سرکاری وکلا کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوتی ہے؟
19 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل جواب طلب کرلیا تھا۔
13 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت اور سزا معطلی کی اپیلوں پر میرٹ پر دلائل سننے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
11 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر پی ٹی آئی کے وکلا سے دلائل طلب کرلیے ۔
26 فروری کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں بانی تحریک انصاف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کو نوٹس جاری کر دیا۔
16 فروری کو پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے سائفر، توشہ خانہ اور نکاح کیسز میں سنائی گئی سزاؤں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا۔
اس سے قبل سماعت میں عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نے سزا کے خلاف اپیلوں پر دلائل کا آغاز کردیا جبکہ عدالت نے فریقین کو 11 مارچ مکمل تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کردی تھی۔
واضح رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔